دولت صآٰٔمیں صآٰٔنہ تھی

تمام ترقی پذیر ممالک کی سیاست ایک ہی طرح کی ہے ہر جگہ لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ انکی حالت سب سے زیادہ خراب ہے دنیا آگے نکل گئی ہے اور وہ پیچھے رہ گئے ہیں ہر غریب ملک کے عوام اشرا فیہ کی کرپشن کی دہائی دے رہے ہیں اور فریاد کناں ہیں کہ اگر فلاں سیاسی جماعت اور اسکا کرپٹ لیڈر حکمران نہ ہوتا تو آج ان کا ملک اوج ثریا پر پہنچ چکا ہوتا۔ یہ ملک ایشیا کا ہو‘ افریقہ یا لاطینی امریکہ کا ان سب کی کہانی ایک ہی جیسی ہے گذشتہ دو دنوں میں دو ایسے ممالک کی کرپشن کے قصے عالمی میڈیا میں صفحہ اوّل کی زینت بنے جن کے نام بہت کم پڑھنے یا سننے کو ملتے تھے۔ ان میں سے ایک کی کہانی نہایت دلچسپ اور دوسرے کی نہایت المناک ہے مگر انہیں کسی بھی غریب ملک کی کہانی کہا جا سکتا ہے۔ یہ قصے بڑے طویل ہیں مگر کوشش کروں گا کہ ایک کالم میں سما جائیں پہلے جنوبی افریقہ کی بات کرتے ہیں سترہ دسمبر کی ایک خبر کے مطابق چند ماہ پہلے اس ملک کے صدر Cyril Ramaphosa کے فارم ہاؤس کے صوفے سے پانچ لاکھ اسی ہزار ڈالرز برآمد ہوئے تھے جسکے بعد سے اب تک انکے مخالفین سڑکوں پر ہیں اور اپوزیشن انکے مواخذے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ صدر راما فوسا کا فارم ہاؤس Phala Phala نام کے ایک قصبے میں واقع ہے جو دارلحکومت Johannesburg سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔اس فارم ہاؤس میں اعلیٰ افریقی نسل کے بھینسوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے اور پھر انہیں ایک بڑی رقم کے عوض بیرون ملک سے آنیوالے تاجروں کے ہاتھ فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں اسی قسم کے کئی دوسرے فارم ہاؤسز بھی ہیں ان میں پلنے والا Syncerosنسل کا ہر بھینسا کم از کم 29 ہزار ڈالر میں بکتا ہے۔ صدر رامافوسا کے فارم ہاؤس سے اٹھنے والا سکینڈل جسے Farmgate کہا جاتا ہے جون کے مہینے میں اسوقت سامنے آیا جب خفیہ ایجنسی کے ایک سابقہ سربراہ Arthur Fraser  جو رامافوسا کے سخت مخالف ہیں نے ایک مقدمہ دائر کیا جس میں کہا گیا کہ صدر رامافوسا کے فارم ہاؤس سے چار ملین ڈالر چوری ہوئے ہیں مگر انہوں نے چوروں کے خلاف رپورٹ درج نہیں کرائی۔آرتھر فریزر نے یہ الزام بھی لگایا کہ رامافوسا نے اپنے وزیر دفاع کو پس پردہ اس ڈکیتی سے آگاہ کیا جس کے بعد تحقیقات شروع ہوئیں اور اب تک کئی مشتبہ افراد کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔صدر رامافوسا نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ انکے فارم منیجر نے حزام مصطفیٰ نامی ایک سوڈانی بزنس مین کو چند بھینسے پانچ لاکھ اسی ہزارڈالرز کے عوض بیچے تھے اور پھر منیجر نے یہ رقم ایک صوفے میں اسلئے چھپا دی تھی کہ اسکا خیال تھا کہ بہت سے ملازم تجوری کے بارے میں جانتے ہیں اسلئے وہ اسے لے اُڑیں گے۔ یہ جواب سن کر اپوزیشن لیڈروں نے صدر صا حب کی خوب کھلی اُڑائی قائد حزب اختلاف Julius Malema نے کہا    " The money must be moved from the safe into the couch because it is not safe in the safe," صدر راما فوسا جنوبی افریقہ کے ممتاز رہنما نیلسن مینڈیلاکے تربیت یافتہ بتائے جاتے ہیں پانچ برس پہلے وہ اسلئے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے کہ انکی شہرت ایک دیانت دار اور بے داغ لیڈر کی تھی مگرکہا جاتا ہے کہ انکے دور حکومت میں ہونیوالی کرپشن نے پچھلی حکومتوں کی بد عنوانی کو پیچھے چھوڑ دیا۔اب لاطینی امریکہ کے ملک Peru کی بات کرتے ہیں یہ ملک گزشتہ کئی دنوں سے عالمی نیوز میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ایک ہفتہ پہلے اس کے صدر Pedro Castillo کو کرپشن اور مطلق العنانی کے الزامات میں بر طرف کیا گیا۔انکے حمایتی سات دنوں سے مسلسل پولیس اور سیکورٹی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں اب تک پچیس افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں پیڈروکیسٹیلو نے پارلیمنٹ کو منسوخ کرکے غیر آئینی طور پر حکومت کرنے کی کوشش کی تھی مگر انہیں ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے بر طرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک پے در پے ڈرامائی واقعات کا سلسلہ جاری ہے انکے نائب صدر Dina Boluarte کو پارلیمنٹ نے صدر منتخب کر لیا ہے پیرو میں ایمر جنسی نافذ ہے اور فوج نے دارلحکومت Lima کے علاوہ کئی دوسرے شہروں میں بھی کرفیو لگا یا ہوا ہے۔ پیرو میں ہونے والے مظاہرے لاطینی امریکہ کے کئی دوسرے ممالک کی صورتحال کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ اسی خطے میں‘ چلی‘ کولمبیا‘ بولیویا اور چند دوسرے ممالک میں بھی مظاہرین احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ تمام ممالک معدنی دولت سے مالا مال ہیں مگر ان میں سرمایہ چند ہاتھوں میں سمٹا ہوا ہے اور جدید زندگی کی سہولیات ابھی تک عام آدمی تک نہیں پہنچیں۔چونتیس ملین آبادی کے ملک پیروکے زیادہ تر لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں۔پچھلے سال پیڈرو کیسٹیلو کو لوگوں نے اسلئے صدر منتخب کیا تھا کہ وہ پہلے ایک کسان اور پھر ایک معلم رہ چکے تھے۔پیرو کے لوگوں نے سوچا تھا کہ انہیں ہمیشہ سے طاقت کے ایوانوں سے باہر رکھا گیا تھا اب وہ اپنے جیسے ایک عام آدمی کو ملک کا سربراہ بنا کر اشرافیہ کو ٹھکانے لگا دیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اور پیڈرو کیسٹیلو کی حکومت بھی کرپشن کے الزامات کی تاب نہ لا کر رخصت ہوگئی۔اس ایک سال کے دوران میں سابقہ صدر کو تین مرتبہ مؤاخذے کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ بچ نکلے۔انکے حامیوں کا کہنا ہے کہ انکے لیڈر کے خلاف سازشی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ملکر کئی جال بچھائے جس کے نتیجے میں وہ کامیاب نہ ہو سکے ان حقائق سے قطع نظر ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ بیشتر ترقی پذیر ممالک کی سیاست ایک ہی قسم کے خلفشار‘ ہیجان اور ڈرامائی واقعات میں جکڑی ہوئی ہے اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ایک بڑی وجہ انکی معاشی زبوں حالی ہے۔