پاکستانی معیشت پرسالانہ رپورٹ جاری

بینک دولت پاکستان نے مالی سال 2021-22ء کے لیے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر اپنی سالانہ رپورٹ آج جاری کردی۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 22ء میں پاکستان کی معیشت نے مسلسل دوسرے سال لگ بھگ 6 فیصد کی حقیقی جی ڈی پی نمو حاصل کی۔ یہ نمو وسیع البنیاد تھی کیونکہ زراعت اور صنعت دونوں میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے اثرات شعبہ خدمات تک پھیل گئے۔ تاہم نمو کا منبع چونکہ بدستور صَرف پر انحصار رہا اور پیداواریت میں بہتری سست رہی اس لیے پاکستان عالمی معیشت کے منفی حالات سے اثر پذیر رہا۔ لہٰذا مالی سال 22ء کے دوران منفی عالمی اور ملکی حالات کے نتیجے میں معاشی عدم توازن دوبارہ نمودار ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 22ء میں توسیعی مالیاتی موقف، اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے اور روس یوکرین تنازع کے نتائج کے باعث جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں بگاڑ پیدا ہوا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگروم کی بحالی میں تاخیر اور سیاسی بے یقینی نے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ذریعے ملک کی ضرر پذیری کو بدتر کردیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے عالمی قیمتوں کے اضافے کے اثرات کو بڑھا کر مہنگائی کے دباؤ کو بہت بلند کردیا۔

صنعت، برآمدات اور تعمیرات کے لیے ٹیکس ترغیبات کی شکل میں مالیاتی پالیسی کی معاونت، صوبائی ترقیاتی اخراجات میں بھاری اضافے اور تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کے اثرات سے صارفین کو تحفظ دینے کے لیے ٹیکس ترغیبات اور سبسڈیز نے معاشی سرگرمی کی رفتار کو سہارا دیا۔

اس کے علاوہ ملکی اور عالمی طلب میں پائیدار اضافے اور کووڈ وبا کے حوالے سے کم ہوتی ہوئی تشویش نے بھی مالی سال 22ء کے دوران معاشی سرگرمی کی رفتار کو تحریک دی۔

گنجائشی پالیسیوں کے اثرات دیگر چیزوں کے ساتھ مل کر معیشت میں منصوبے سے زائد نمو کا سبب بنے، اور اس کے ساتھ ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں میں تیز رفتار اضافے نے ملک کے اقتصادی استحکام کو خطرے سے دو چار کیا۔ بالخصوص اس صورتِ حال کا نتیجہ مالی سال 22ء میں بھاری بھرکم درآمدی بل کی صورت میں نکلا جس نے برآمدات میں ہونے والے اضافے کو خاصا پیچھے چھوڑ دیا اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھا کر چار سال کی بلند سطح تک پہنچا دیا۔

رپورٹ کے مطابق زرِ مبادلہ قرضوں اور واجبات کی خالص آمد گذشتہ سال کی نسبت خاصی بڑھ گئی، تاہم وہ منصوبے اور وعدے سے کم رہی جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بنا پر مالی سال 22ء کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر میں کمی آئی۔

بیرونی کھاتے کے دباؤ کے علاوہ امریکی ڈالر کے اشاریے میں اضافہ، بالخصوص وہ جو مالی سال کی دوسری ششماہی میں ہوا، پاکستانی روپے کی قدر میں نمایاں کمی کا سبب بنا جس نے دو چیزوں، یعنی ملک میں بلند طلب اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے مشترکہ اثر کو مزید بڑھا دیا، اور اس کا نتیجہ مہنگائی کا دباؤ بڑھنے کی صورت میں نکلا۔

ملکی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی مالی سال 22ء میں 12.2 فیصد کی دوہندسی سطح تک پہنچ گئی جو اسٹیٹ بینک کے نظر ثانی شدہ تخمینے 9 تا 11 فیصد سے بھی زائد ہے۔ غذائی گروپ بالخصوص غیر تلف پذیر زمرہ مہنگائی کا اہم سبب بنا کیونکہ درآمدی غذائی اجناس (جیسے پام آئل اور چائے) کی عالمی قیمتیں میں مسلسل بڑھ رہی تھیں، جبکہ بعض اجناس (خاص طور پر دودھ اور گوشت) کے معاملے میں طلب اور رسد کا فرق بھی تھا۔ مزید برآں، ایندھن کی مہنگائی بھی دورانِ سال بلندی پر رہی۔ غیر غذائی غیر توانائی گروپ میں بھی مہنگائی دورانِ مالی سال بڑھ گئی جو طلب اور رسد دونوں کے دباؤ کی عکاس ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 22ء میں اگرچہ درآمدات میں تیز رفتار اضافے سے ٹیکس وصولیاں بڑھیں تاہم ایندھن پر سبسڈیز میں وسیع البنیاد اضافے سے مالیاتی اور بنیادی خسارہ بڑھ گیا۔ دورانِ سال اخراجاتِ جاریہ میں اضافے نے وفاقی ترقیاتی اخراجات کے لیے مالیاتی گنجائش گھٹا دی۔ اس سے قطع نظر، وفاقی اور صوبائی دونوں کی ٹیکس وصولیاں بڑھ گئیں۔ ایف بی آر کے ٹیکس میں چھ سال کی بلند ترین نمو ہوئی اور وہ مالی سال کے لیے نظر ثانی شدہ زائد بجٹ تخمینے سے بھی معمولی سا آگے نکل گئی۔ ٹیکس وصولی میں بڑا محرک درآمدات سے متعلق ٹیکس تھے جن کا حصہ مالی سال 22ء کے دوران ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس وصولی میں دو تہائی سے بھی زائد رہا۔ دورانِ سال بیرونی اور مالیاتی کھاتے میں بڑھتے ہوئے عدم توازن کے مطابق سرکاری قرضے کا بوجھ بھی بڑھ گیا۔ دوران سال بڑھتی ہوئی شرحِ سود کے ساتھ ساتھ ملکی قرضے کی واپسی کی ضروریات بھی بڑھتی گئیں۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ مالی سال 22ء کے تجربے سے اس امر کی ضرورت ایک مرتبہ پھر محسوس کی گئی کہ ملک کی ساختی کمزوریوں کو دور کیا جائے ، جیسے زرمبادلہ کی آمدنی کی پست اساس اور بیرونی سرمایہ کاری کی بہت تھوڑی سی رقوم ۔ اس لیے ملکی اشیا سازی کی اساس بڑھانے کے ساتھ ساتھ توانائی کی کارگزاری اور بچت یقینی بناکر معیشت پر توانائی کے بوجھ کو کم کرنے کا مربوط طرزِفکر درکار ہے۔ مزیدبرآں، موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ کی غیراطمینان بخش صورتِ حال کے باعث ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دانشمندانہ حکمت عملی تشکیل دینے کی فوری ضرورت ہے۔ موسموں کے بدلتے ہوئے حالات کے لیے موزوں نئے بیجوں کی تیاری اور زرعی پیداواریت بڑھانے کے لیے آبی انتظام کی حکمت عملی پر مبنی فریم ورک کی تشکیل کو ترجیح دینی چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنعتی ڈھانچے کو جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تاہم، اس کے لیے طویل عرصے تک طبعی اور انسانی وسائل میں تسلسل کے ساتھ بھاری سرمایہ کاری درکار ہے۔

پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد آبادیاتی ثمرات سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں ایک خصوصی باب شامل کیا گیا ہے جس میں پاکستان میں آبادیاتی ثمرات کے امکانات کی تفہیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں تجویز دی گئی ہے کہ انسانی سرمائے کے معیار میں بہتری کے لیے سرمایہ کاری، عمدہ نظم و نسق، اور اس کے ساتھ ساتھ سازگار معاشی ماحول جو بلند بچتوں اور سرمایہ کاری کو یقینی بناتا ہو، صنعت دوست پالیسیاں اور مؤثر منڈیاں، آبادیاتی ثمرات حاصل کرنے کے لیے چند کلیدی شرائط ہیں۔