نیا سال اور عالمی امن

بہت جلد ماضی کا حصہ بن جانے والے سال رواں کی طرح نئے سال میں بھی امن اور خوشحالی کا انحصار یوکرین جنگ کے تصفیے پر ہو گا۔یہ جنگ صرف روس اور یوکرین کے درمیان نہیں بلکہ یہ روس اور مغربی ممالک کے درمیان ہے گذشتہ ماہ یوکرین کے ایک بڑے ساحلی شہر خرسون سے روسی فوج کے انخلا کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ماسکوکیلئے اس جنگ کو زیادہ دیر تک جاری رکھنا ممکن نہ ہو گا لیکن چند روز پہلے صدر پیوٹن نے تین لاکھ جوانوں کو فوجی تربیت دینے کے علاوہ اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ فوج کو جدید اسلحے سے لیکر روز مرہ کی ضروریات تک تمام سہولتیں مہیا کریں گے تا کہ وہ نیٹو ممالک کی جارحیت کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کر سکیں۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے مغرب کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے امریکہ کے دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ کئی محاذوں پر شکست کھانے کے باوجود پیوٹن کی خود اعتمادی اسلئے حیران کن نہیں ہے کہ اسکے پاس اتنی افرادی قوت اور اسلحے کے ذخائر موجود ہیں کہ وہ ایک طویل جنگ لڑ سکتا ہے۔ وہ صرف فضائی طاقت ہی کے استعمال سے یوکرین کے طول و عرض میں تباہی مچا سکتا ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتے صدر پیوٹن نے کئی تقریبات سے خطاب کیا اور کافی دیر تک اخبار نویسوں سے گفتگو کی‘ نو دسمبر کو کرغیزستان میں علاقائی کانفرنس میں شمولیت کے بعد ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوے صدر پیوٹن نے کہا کہ انہیں یوکرین جنگ میں مشکلات کا سامنا نہیں ہے اور یہ سپیشل ملٹری آپریشن انکی حکمت عملی کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ بعض دفاعی ماہرین نے صدر پیوٹن کی اس خود اعتمادی کو ہٹ دھرمی قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ پیوٹن ایک ایسے وقت میں مطمئن‘ ریلیکس اور نارمل نظر آنے کی کوشش کر رہا ہے جب اسکے ملک کی معیشت مغربی ممالک کی پابندیوں کی وجہ سے خستہ حال ہو چکی ہے‘ اسکے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور کئی محاذوں پر اسکی فوج پسپا ہو چکی ہے۔ صدر پیوٹن پر مغرب میں ہونیوالی اس تنقید کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ جب بھی کچھ کہتے ہیں مغربی ممالک میں اسے غور سے سنا جاتا ہے پیوٹن خود بھی یہ جانتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں با اثر لوگ انکی بات کو روس کی پالیسی سٹیٹمنٹ سمجھتے ہیں۔نو دسمبر کو انہوں نے اپنے عالمی سامعین کو یہ کہہ کر چونکا دیا کہ روس عنقریب اپنی اس نیوکلیئرڈاکٹرائن میں تبدیلی کرے گا جس کے تحت اسنے صرف پیش بندی کے طور پر ایٹمی حملہُرع-عمپتیطع ستریکع))کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے اسکے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ایسے ممکنہ جوہری حملے کے جواب میں جو جارحانہ طرز عمل اختیار کرے گا ہم اسکے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ صدر بائیڈن کئی مرتبہ روس کی طرف سے یوکرین پر کسی ایٹمی حملے کا بھرپور جواب دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ایٹمی جنگ پر ہونیوالے اس مکالمے کے بعد جب اکیس دسمبر کو یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلینسکی نے واشنگٹن کا دورہ کیا تو انکا اور انکے میزبانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اس روز انہیں ایک ایسا اعزاز ملا جو یہاں آنے والے کم سربراہوں کوملتا ہے کیپیٹل ہل میں ہا ؤس اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب صرف اسرائیل یا نیٹو ممالک کے سربراہوں کے حصے میں آتا ہے زیلینسکی نے اپنے خطاب میں اس عزت افزائی کا کئی مرتبہ شکریہ ادا کیا۔ یوکرین کے صدر نے امریکی قیادت کو بتایا کہ انکا ملک صرف اپنی سالمیت کا دفاع نہیں کر رہا بلکہ وہ جمہوریت اور عالمی نظام کے تحفظ کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس روز صدر بائیڈن نے یوکرین کے لئے پینتالیس ارب ڈالر کی معاشی اور عسکری امداد کا اعلان کیا اسکے بعد امریکہ کی اب تک دی جانیوالی امداد سو ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت اس جنگ کی مخالفت کر رہی ہے اسکا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کو یوکرین کی سرحدوں کی بہت فکر ہے مگر اپنی سرحدوں سے ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں آنیوالے مہاجرین کی انہیں پرواہ نہیں ہے۔ اسکے علاوہ صدر بائیڈن کیلئے یورپی اتحادکو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کے بیشتر ممالک جن میں جرمنی‘ فرانس اور اٹلی سر فہرست ہیں پس پردہ اس جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں روس سے برآمد کی جانے والی گیس اور یوکرین کی گندم کی کمیابی نے عالمی معیشت کو جس طرح تہہ و بالا کیا ہے اسکے نتائج ہر کسی کے لئے ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔ نئے سال میں یوکرین جنگ اسلئے عالمی امن کیلئے کلیدی اہمیت کی حامل ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پالیسی ساز اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ اگر یوکرین میں پسپائی اختیار کرتا ہے تو یہ چین کیلئے ایک واضح پیغام ہو گا کہ وہ تائیوان کے الحاق کیلئے پیشقدمی کر سکتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار ںیچحہلاس خریستہف نے 15دسمبر کی اشاعت میں لکھا ہے کہ نئے سال میں عالمی امن کو سب سے بڑا خطرہ بحیرۂ تائیوان میں ہے کہ جہاں امریکہ اور چین کے اختلافات ایک جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔امریکی عوام بھی اس جنگ میں ایک سو ارب ڈالرز جھونک دینے کے بعد اب سوچ رہے ہیں کہ اتنا بھاری نقصان آخر کب تک برداشت کیا جا سکتا ہے۔نظر یہ آ رہا ہے کہ نئے سال میں اگر یوکرین جنگ اختتام پذیر نہیں ہوتی تو پھر2024 میں ہونیوالے صدارتی انتخابات میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔