ابھی گرانئی شب میں کمی نہیں آئی

اس روزشام ڈھلنے سے پہلے محمد ابو نیز کی بیوی نے اسے فون کیا اور کہا کہ وہ گھر کچھ دیر سے آئے اسرائیلی فوج نے علاقے کامحاصرہ کیا ہوا ہے اور گھروں کی تلاشی لی جا رہی ہے ابو نیز دن کو ایک سرکاری ملازمت کرتا تھا اور رات کے وقت ایک ریسٹورنٹ میں کام کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتاتھا ان دونوں ملازمتوں کے درمیان اسے چندگھنٹے آرام کے ملتے تھے وہ انہیں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھااسلئے اسنے بیوی کی بات پر توجہ نہ دی اور گھر کی طرف چل پڑامگر اس شام وہ گھر نہ پہنچ سکا۔اسرائیلی فوج نے اسے تین دوسرے فلسطینی نوجوانوں سمیت ہلاک کر دیا چند گھنٹوں بعد اسکا باپ حشام ابو نیز مردہ خانے میں اسکی لاش لینے گیا تو الفتح اور اسلامک جہاد کے نوجوانوں کا ہجوم وہاں پہلے سے موجود تھا۔شدید صدمے کے عالم میں اسنے یہ نہ دیکھا کہ اسکے شہید بیٹے کاجسم اسلامک جہاد کے سیاہ پرچم میں لپٹا ہوا تھا اور اسکے سر پر بندھی ہوئی سیاہ پٹی پر بھی اسی تنظیم کا نام لکھا تھا اسنے اپنے بیٹے کے ماتھے کو چوما اور کہا بیٹے میں آگیا ہوں میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں اس جگہ موجود سب لوگ جانتے تھے کہ ستائیس سالہ محمد ابو نیز ابدی نیند سو چکا تھا اسلامک جہاد کے نوجوانوں نے بڑے اہتمام سے اسکی لاش کو باہر کھڑے سجے سجائے ٹرک تک پہنچایا اس قافلے کے روانہ ہونے سے پہلے ایک شخص نے حشام ابو نیز سے کہا کہ وہ اگر چاہے تو الفتح اسکے بیٹے کی تدفین کا بندو بست کر سکتی ہے اس نے جواب دیا میرا بیٹا نہ اسلامک جہاد کا ممبر ہے اور نہ الفتح کا وہ تو صرف میرا بیٹا ہے۔حشام ابو نیز جانتا تھا کہ ان دنوں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی نوجوانوں کی ہلاکتیں روز مرہ کا معمول بن چکی تھیں اسکے دل کو کھٹکا تو ہر وقت لگا رہتا تھا مگر یہ سوچ کر وہ خود کوتسلی دے دیتا تھا کہ اسکے دونوں بیٹے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کسی مذہبی تنظیم کے ممبر نہیں ہیں اسے معلوم نہ تھا کہ اٹھائیس ستمبر کی شام ایک سفاک اسرائیلی فوجی
 اسکے بیٹے کو دہشت گرد سمجھ کر ہلاک کر دیگا۔ امحمد ابو نیز کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس سے کچھ فاصلے پر اسلامک جہاد کے تین نوجوان کھڑے تھے۔ اسے ان تینوں کا ساتھی سمجھ کر انکے ساتھ ہی شہید کر دیا گیا گذشتہ سال ویسٹ بینک کے فلسطینیوں کیلئے بہت بھیانک ثابت ہوا اس سال 166 فلسطینی شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 2005 میں اس سے کچھ زیادہ شہادتیں ہوئی تھیں۔اسرائیلی فوج نے 2022میں ظلم و ستم کی نئی داستانیں اسلئے رقم کیں کہ اس سال فلسطینیوں نے مارچ اور اپریل میں پے در پے حملے کر کے انیس اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ اسرائیلی فورسز کی جوابی کاروائی کے نتیجے میں الفتح‘ اسلامک جہاد اور حماص پہلے سے زیادہ سرگرم عمل ہو گئی تھیں۔ 
حشام ابو نیز نے ایک صحافی کو بتایا کہ اسرائیل کی فوج نے کبھی عام شہری اور جنگجو میں فرق نہیں کیا۔ اسنے ہمیشہ بلا امتیاز گولیاں چلا کر فلسطینیوں کو شہید کیا ہے آگ اور خون کا یہ کھیل ایک ایسے وقت میں کھیلا جا رہا ہے کہ جب ویسٹ بینک اور غازہ میں ہیومن رائٹس کی تنظیمیں موجود ہیں اور ہر واردات کے بعد کئی ٹی وی چینلز کے کیمرے بھی پہنچ جاتے ہیں مگر اسرائیل کی فوج کسی کی پرواہ نہیں کرتی ہر حملے کے بعد ایکطرف فلسطینیوں کے گھروں میں کہرام برپا ہوتا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کا ریاستی میڈیا دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبر دے رہا ہوتا ہے نوجوان فلسطینیوں کے جنازوں کے مناظر روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں  ان مواقع پر اسلامی تنظیمیں نہ صرف اپنے شہیدوں کے سفر آخرت میں حصہ لیتی ہیں بلکہ وہ لواحقین کی مالی کفالت بھی کرتی ہیں اور بیواؤں اور یتیموں کے اخراجات کا بندوبست بھی کر تی ہیں۔امریکہ نے 2018میں فلسطین اتھارٹی کو دی جانے والی امداد اسلئے بند کر دی تھی کہ اسے الفتح کے اس امدادی فنڈ پر اعتراض تھا جو شہدا کے خاندانوں کے لئے قائم کیا گیاتھا اسرائیل ہر سال مقبوضہ علاقوں سے جو ٹیکس وصول کرتا ہے اسکا ایک حصہ وہ ایک معاہدے کے تحت ویسٹ بینک کو دینے کا پابند ہے مگر گذشتہ چار برسوں سے اسنے یہ رقم اسلئے ضبط کی ہوئی ہے کہ وہ اسلامی تنظیموں سے شہدا ء فنڈ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے اسکا کہنا ہے کہ یہ فنڈ اسلامی تنظیموں کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے فخر سے اپنے آپ کو ایک جمہوری حکومت کہلوانے والا اسرائیل مظلوم فلسطینیوں سے جینے کا حق چھین لینے کے بعد انہیں مرنے کا حق بھی نہیں دے رہا اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ڈھنڈھورا پیٹنے  والا امریکہ بھی صیہونی ریاست کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کرتا اب بنجامن نتن یاہونے جس کروفر کیساتھ انتہا پسند جماعتوں کی مدد سے ایک مرتبہ پھر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ فلسطینیوں کیلئے نیا سال بھی کوئی اچھی خبر لیکر نہیں آیا۔ فیض صاحب نے انہی کربناک لمحوں کے بارے میں کہا ہے۔
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں۔۔ابھی گرانئی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی۔۔چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی