ہنگامہ خیز واقعات ہر ملک میں ہوتے رہتے ہیں مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جو اتنا دھماکہ خیز ہو لوگ کہہ اٹھیں کہ ایسا تو پچھلے سو سال میں نہیں ہوا۔عام طور پر امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کے بعد ہاؤس کے پہلے ہی اجلاس میں سپیکر منتخب کرلیا جاتا ہے۔ان انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی سیٹیں بھی سب کے سامنے ہوتی ہیں اور جس لیڈر نے ان انتخابات میں پارٹی کی قیادت کی ہوتی ہے اس کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے کانگرس مین Kevin McCarthy کا شمار نہ صرف پارٹی کے سینئر ترین لیڈروں میں ہوتا ہے بلکہ وہ 2015ء سے یہ منصب حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں مگر انکے ساتھ انکی جماعت کے بیس نو منتخب اور نوجوان ممبروں نے وہ کام کیا جو امریکہ کی تاریخ میں آخری مرتبہ 1923میں ہوا تھا۔ سو سال پہلے ایوان نمائندگان میں آٹھ مرتبہ ووٹنگ ہونے کے باوجود کوئی سپیکر منتخب نہ ہو سکا تھا۔یہ مرحلہ کئی دنوں تک جاری رہنے کے بعد نویں مرتبہ ووٹنگ میں طے ہوا تھا لیکن اسمرتبہ اس ایوان میں منگل کے روز سپیکر کے انتخاب کے لئے ہونے والی پہلی ووٹنگ کے بعد یہ سلسلہ جمعے کی رات بارہ بجے کے بعد تک جاری رہاان چار دنوں میں پندرہ مرتبہ ووٹنگ ہوئی اور بمشکل تمام بڑے ہنگامہ خیز اور جذباتی مراحل سے گذرنے کے بعد ہفتے کی صبح کیون میکارتھی بمشکل تمام 216 ووٹ لے کرسپیکر کی کرسی پر براجمان ہو گئے لیکن ان کے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے یہ منصب حاصل کرنے کے لئے مخالف گروپ کی اتنی شرائط مانی ہیں کہ اب نہ صرف اس عہدے کا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا ہے بلکہ اس کا مزہ بھی نہیں رہا۔ اب عملی طور پر کیون میکارتھی ریپبلکن پارٹی کے اندر اپنے مخالفین کا ہر مطالبہ ماننے کے پابند ہو چکے ہیں انکی کمزور پوزیشن کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے باغی اراکین کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ 435 کے ایوان میں اگر کوئی ایک ممبر بھی چاہے تو وہ سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لا سکتا ہے۔ یوں اکثریتی جماعت کا سپیکر اپنے ہر ممبر کا ہر
مطالبہ ماننے کا پابند ہے وہ جسے ناراض کرے گا وہ فوراً اسے ہٹانے کیلئے ووٹنگ کا مطالبہ کر دیگا۔ایسا اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے 2015میں اسوقت کے سپیکر John Boehner کے خلاف جب ریپبلکن پارٹی کے ایک ممبر نے قرارداد لانے کی کوشش کی تو مستعفی ہو گئے۔اسی طرح ان کے بعد آنے والے سپیکر Paul Ryan کو بھی اسی وجہ سے 2019ء میں استعفیٰ دینا پڑا تھا گزشتہ چند سالوں سے ریپبلکن پارٹی کی یہ روایت بن چکی ہے کہ یہ جماعت اکثریت حاصل کرتے ہی سب سے پہلا کام یہ کرتی ہے کہ اس کے مٹھی بھر ممبر پورے ہاؤس کو اپنی مرضی
کے مطابق چلانے کے لئے ہر ممبر کے لئے یہ اختیار حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ سپیکر کو برطرف کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی ہاؤس میں اکثریت حاصل کرنے کے فوراً بعد ا س رول کو ختم کر دیتی ہے۔ ریپبلکن پارٹی کا ہارڈ لائن گروپ جسے Freedom Caucus کہا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ وہ سپیکر کے ہاتھ میں اختیارات کی مرکزیت کے خلاف ہیں اس مطالبے کی کڑیاں دونوں بڑی جماعتوں کے بنیادی اختلافات سے جڑی ہوئی ہیں۔ریپبلکن پارٹی کا سیاسی فلسفہ یہ ہے کہ حکومت کو بے دریغ اخراجات کرنے اور ٹیکس لگانے کی کھلی چھٹی نہیں ہونی چاہئے، حکومت کو اخراجات کم کرنے چاہئیں‘ بجٹ بیلنس کرنا چاہئے: قرض لینے سے گریز کرنا چاہئے اور غیر قانونی امیگرینٹس کے داخلے پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ ان مطالبات کا بنیادی ہدف وہ ویلفیئر سسٹم ہے جس کے تحت کم
آمدنی والے طبقات کو ڈیموکریٹک پارٹی کی ہر حکومت دل کھول کر امداد دیتی ہے۔ یہ مدد زیادہ تر ٹیکس کریڈٹ‘ مفت تعلیم‘ فری ہاؤسنگ اور ملازمتوں کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اس طبقے کے لوگ ہر الیکشن میں بھاری اکثریت سے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔اس طبقے کی اکثریت بڑے شہروں میں رہتی ہے جہاں سیاہ فام‘ لاطینی امریکہ اور دنیا بھر سے آئے ہوے تارکین وطن کی اکثریت ہے۔ اس کے برعکس ان شہروں سے دور دیہاتی علاقوں میں رہنے والی سفید فام اکثریت یہ کہتی ہے کہ ڈیموکریٹس نے ان سے انکا ملک چھین کر تارکین وطن کے حوالے کردیا ہے۔ گزشتہ عشرے میں ریپبلکن پارٹی میں ہر وسط مدتی اور صدارتی انتخاب کے بعد پندرہ بیس افراد پر مشتمل ایک ایساہارڈ لائن گروپ سامنے آ جاتا ہے جو دونوں ایوانوں کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے۔ اس گروہ نے اسمرتبہ کیون میکارتھی کے انتخاب سے پہلے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ ہاؤس میں کسی ایسے بل کو پیش نہیں ہونے دیں گے جس میں حکومت نے اخراجات بڑھانے کا مطالبہ کیا ہو اور اس کے ساتھ کھربوں ڈالر کے پرانے قرضے ادا کرنے کے لئے مزید قرض کی درخواست بھی دی ہو۔ اب ڈیموکریٹس اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر ہاؤس نے Debt Ceiling نہ بڑھائی تو حکومت ڈیفالٹ کر جائے گی۔اس وقت امریکہ اکتیس کھرب ڈالر کا مقروض ہے یہ قرضہ مختلف وفاقی حکومتوں نے امریکی کمپنیوں‘ بینکوں اور دوسرے ممالک سے لیا ہوا ہے۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوے فریڈم کاکس کے ایک ممبر Chip Roy نے کہا ہے کہ آخر وہ پیسہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہمیں قرض لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قرض ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن کے بارے میں کہا This Town is badly broken, and we need to fix it. یعنی یہ شہر بری طرح ٹوٹا ہوا ہے اور اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔