یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکہ ایک خوشحال اور طاقتور ملک ہونے کے باوجود قرض لے کر اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔واشنگٹن میں حکمران ڈیمو کریٹس ہوں یا ریپبلیکن بجٹ ہمیشہ خسارے ہی کا پیش کیا جاتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی ٹیکس اور برآمدات کی آمدنی مل کر بھی اسکے اخراجات پورے نہیں کر سکتی۔ اسکے نتیجے میں وزارت خزانہ کو حکومتی بانڈز بیچنے پڑتے ہیں یہ بانڈز ملک کے اندر اور باہر اسلئے آسانی سے بک جاتے ہیں کہ انہیں خریدنے والے ادارے جانتے ہیں کہ یہ ایک محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری ہے۔ امریکہ نے کیونکہ کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا اسلئے عالمی منڈی میں اسکی ساکھ بہت اچھی ہے۔ان بانڈز کی فروخت سے جو رقم حاصل ہوتی ہے امریکی حکومت اس سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں‘ ریٹائرڈ لوگوں کی پنشن اور پہلے سے لئے ہوے قرض پر سود کی ادائیگی کرتی ہے۔دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں کیونکہ خوب خرچ کرتی ہیں اسلئے انکے اخراجات کو قابو میں رکھنے کے لئے کانگریس نے Debt Limitیعنی قرض کی ایک حد مقرر کی ہوئی ہے حکومت کی درخواست پر کانگرس اس حد میں اضافہ کرتی رہتی ہے‘ آخری مرتبہ کانگریس (ہاؤس اور سینٹ) نے سات اکتوبر 2021 کو یہ انتہا 31.4 کھرب ڈالرزتک بڑھائی تھی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس رقم سے زیادہ قرض نہیں لے سکتی‘ اب 19 جنوری کو حکومت اس سنگ میل پر پہنچ کر رک گئی ہے۔ وہ اس سرخ لکیر کو عبور نہیں کر سکتی۔ آجکل یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا امریکی حکومت ڈیفالٹ کر گئی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی ایسا نہیں ہوا مگر حکومت تیزی سے ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تیرہ جنوری کو Treasury Secretary (وزیر خزانہ) نے کانگریس کو ایک خط بھیجا تھا جس میں لکھا ہے کہ حکومت انیس جنوری کو Debt Limit تک پہنچ جائے گی اور اسکے بعد اسے اخراجات کی ادا ئیگی جاری رکھنے کے لئے Extra Ordinary Measures یعنی غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ا س سے مراد یہ ہے کہ حکومت کے پاس جتنی بھی Cash In
Hand ہے وہ اسی پر گزارہ کرے گی۔ زیادہ ضروری اخراجات کر دئیے جائیں گے اور جن بلوں کی ادائیگی کو مؤخر کیا جا سکتا ہے انہیں التوا میں ڈال دیا جائیگا۔سیکرٹری خزانہ Janet Yellen نے اس خط میں لکھا ہے کہ یہ طریقہ کار زیادہ سے زیادہ جون کے پہلے ہفتے تک چل سکے گا۔ اسکے بعد ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹالا نہ جا سکے گا۔ ان دلائل کی روشنی میں سیکرٹری خزانہ نے کانگریس سے درخواست کی ہے کہ وہ قرض کی حد کو جلد از جلد بڑھا دے تا کہ ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹالا جا سکے۔کانگریس مزید قرض لینے کی اجا زت اسی صورت میں دیتی ہے جب دونوں سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر قانون سازی کر کے ایک نئی Debt Limit کاتعین کر دیں۔ اس قانون سازی کے آثار اس لئے معدوم ہیں کہ دو ہفتے پہلے ہاؤس میں وسط مدتی انتخابات کے بعد اکثریت حاصل کرنے والی ریپبلیکن پارٹی کے سپیکر Kevin McCarthy نے یہ شرط عائد کی ہے کہ جب تک بائیڈن انتظامیہ اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی نہیں کرتی اسوقت تک مزید قرض لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسکے جواب میں صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر ریپبلیکن پارٹی سے مذاکرات نہیں کریں گے اسکی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ وہ کسی نئی خریداری کے لیے نہیں بلکہ پہلے سے منظور شدہ اخراجات کے لیے قرض لینا چاہتے ہیں اسکے بعد دونوں جماعتوں میں جو تند و تیز مکالمہ ہوا اس نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔وال سٹریٹ کے بڑے مالیاتی اداروں نے ابھی سے حساب کتاب کرنا شروع کر دیا ہے کہ حکومت کے پاس
کب کیش ختم ہو گی۔ میڈیا کے مطابق وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت اگر اپنے خریدے ہوئے بانڈز کی ادائیگی نہ کر سکے گی تو اسکے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔چند بڑے ادارے اس تباہی میں چھپے ہوئے مواقع تلاش کر رہے ہیں دوسری طرف معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ قرض کی حد میں بر وقت اضافہ نہ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہو گی Default will cause a deep recession in the United States and potentially prompt a global financial crisisیعنی ڈیفالٹ امریکہ میں گہری کساد بازاری پیدا کر یگا اور اسکے ساتھ ہی ایک عالمی معاشی بحران کو بھی جنم دیگا۔صدر بائیڈن کے مشیر Andrew Bates نے کہا ہے کہ امریکہ نے اگر ڈیفالٹ کر دیا تو کئی ملین Jobs چند دنوں میں ختم ہو جائیں گی اورریٹائرڈ لوگوں کو پنشن کی ادائیگی ممکن نہ ہو گی، اسکے علاوہ انٹرسٹ ریٹ اتنا بڑھ جائے گا کہ کاروباری ادارے قرض نہ لے سکیں گے اور لوگ گھر خریدنا چھوڑ دیں گے۔اس قسم کی صورتحال 2011 میں بھی پیدا ہوئی تھی جب صدر اوباما کے دور میں ریپبلیکن پارٹی نے قرض کی حد بڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اسوقت کئی ہفتوں کے تناؤ کے بعد صدر اوباما نے مخالفین کی کئی شرائط مان کر بحران کو ٹال دیا تھا لیکن اب ڈیموکریٹس کہہ رہے ہیں کہ وہ ریپبلیکن پارٹی کو پرانے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔معروف معیشت دان Paul Krugman نے کہا ہے Quite a few Republicans may well want a crisis, prefering to watch the world burn under a Democratic administration. یعنی ریپبلیکن پارٹی کے بعض ممبر وں کی ترجیح یہ ہے کہ وہ دنیا کو ڈیموکریٹس کی حکومت میں جلتا ہوا دیکھیں،اسکے برعکس بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں 2011 کے بحران کی طرح اسمرتبہ بھی دونوں جماعتوں کی قیادت کوئی راستہ نکال لے گی۔