وہ کہتا ہے رشتے صرف انسانوں کے درمیان نہیں ہوتے یہ درو دیوار اور شہروں سے بھی ہوتے ہیں اس نے یہ بات اپنی کتابوں میں بھی لکھی ہے اسکا نام عمار عزوز (Ammar AzzouZ)ہے اسکے ایک مضمون کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
ہومز میرے شہر کا نام ہے کسی زمانے میں یہ شام کے انقلاب کا دارالخلافہ ہوتا تھا ان دنوں یہ اخبارات کی شہ سرخیوں میں نظر آتا تھا اسکے گلی کوچوں میں باغی کئی برسوں تک حکومت کی فوج کا مقابلہ کرتے رہے اس جنگ میں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور کئی میں سوراخ ہو گئے۔ آخر میں جو کچھ رہ گیا اس پر حکومت نے قبضہ کر لیا پھر دنیا ہومز کو بھول گئی۔دنیا کا سب سے زیادہ تباہ شدہ شہر ایک فٹ نوٹ بن گیا لیکن میرے لیے نہیں میں 2011 میں شام سے چلا آیا اسوقت پر امن مظاہرے ہورہے تھے اور حکومت انہیں تشدد کے ذریعے ختم کر رہی تھی۔ میرے محلے سے کچھ فاصلے پر ٹینک کھڑے تھے۔ کئی مکانوں کی چھتوں پر مشین گنیں لگی ہوئی تھیں۔موت دھیرے دھیرے قریب آ رہی تھی۔ میں نے برطانیہ میں پناہ لے لی اور 2017 سے میں خوبصورت اور متنوع شہر لندن میں رہ رہا ہوں۔ میں برطانیہ کا شہری ہوں لیکن میرا دل ہومز کے لئے تڑپتا ہے میں جب اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتا ہوں تو مجھے Hampstead Heath کے درخت اور Highgate Cemetery نظر آتے ہیں آسمان پر بادل لہرا رہے ہوتے ہیں لیکن میرا ذہن کسی دوسری جگہ ہوتا ہے۔
مجھے وہ شام یاد آتی ہے جب میرے ایک دوست کواس لئے ہلاک کر دیا گیا تھا کہ وہ ایک مظاہرے میں حصہ لے رہا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میری گلی میں دو بچوں کو گولیاں ماری گئی تھیں مرد اور عورتیں چلا رہے تھے زمین پر لہو بہہ رہا تھا اس غم و اندوہ میں سے بادل کیسے گزر سکتے ہیں۔ میں جب لندن کی کسی کافی شاپ میں کافی کا کپ اٹھاتا ہوں تو مجھے ہومز میں اپنے بہن بھائیوں‘ دوستوں اور ہمسایوں کیساتھ کافی پینا یاد آ جاتا ہے۔ کئی مرتبہ کھوئی ہوئی اس زندگی کی یادیں میرے قدموں کو روک لیتی ہیں۔لندن کے کسی ریسٹورنٹ میں ڈنر کے بعد میں بل کو دیکھتا رہتا ہوں میرے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کیا بات ہے میں انہیں کہتا ہوں یہ بل شام میں ایک ایسے نوجوان کی دو مہینے کی تنخواہ ہے جو ہر روز دو شفٹوں میں کام کرتا ہے۔ میرے دوست کہتے ہیں مجھے اپنی زندگی گذارنی چاہئے ہم دنیا کو تبدیل نہیں کر سکتے ہم بل ادا کرتے ہیں اور ریسٹورنٹ سے نکل آتے ہیں۔
رات کو سوتے ہوے‘ اگر کبھی نیند آ جائے تو‘ مجھے مردہ جسم اور منہدم عمارتیں نظر آتی ہیں میرے لا شعور کا جغرافیہ ہمیشہ میرا ملک شام اور میرا شہر ہومز ہوتا ہے میں لندن کے درو دیوار کو ہومز پر ثبت کر دیتا ہوں Kentish Town کے ریسٹورنٹ‘ Euston Station اور میرے دوست سب میرے ساتھ میرے شہر چلے جاتے ہیں۔ ہومز‘ تم مجھے ہر جگہ نظر آتے ہو میں تمہیں نہیں بھولوں گا۔
میرے جو دوست ابھی تک وہاں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد کے دنوں کی زندگی جنگ سے بد ترہوتی ہے وہ مجھے تکلیف دہ خاموشی کے بارے میں بتاتے ہیں اتنی تباہی کے باوجود بھی ہومز میں لوگ کھلے عام فریاد نہیں کرتے وہاں درد
کو چھپا لیا گیا ہے نالہ و شیون کو جسم و جاں میں سمو لیا گیا ہے انقلاب کے دارالخلافے کی آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔میرا ایک برطانوی دوست اس بات پر خفہ تھا کہ پچھلے سال وہ صرف تین مرتبہ ملک سے باہر تفریح کے لیے گیا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اسے کیا کہوں مجھے یقین ہے کہ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانے والی بات اسے کبھی سمجھ نہیں آئے گی میں اسے یہ بات سمجھانے کی کوشش بھی نہیں کرتاشاید میری زبان اسی دن کٹ گئی تھی جب میرا شہر ٹوٹا تھا کبھی کبھار جب دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیسا ہوں تو میں انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جاؤ اور جا کے دیکھو ہومز کیسا ہے اسکے ساتھ کیا ہوا پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ میں کیسے ہوں میں لندن میں مہربان اور نفیس دوستوں کی محفل میں رہتا ہوں ان میں ادیب‘ اساتذہ اور فنکار شامل ہیں کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ میرے دوست مجھے بچا لیں گے مگر پھر ایک خوف مجھ پر چھا جاتا ہے لگتا ہے میں ہمیشہ ایک ایسے مسافر کی طرح رہونگا جو ہر وقت سفر پر جانے کے لئے تیار ہوتا ہے میرے اندر ہر وقت حرکت میں رہنے کا ایسا احساس چھپا ہوا ہے جو مجھے کسی کو اپنانے نہیں دیتا میں بہت کم چیزیں خریدتا ہوں مجھے ڈر ہے کہ یہ مجھ سے چھن جائیں گی میں نے پورا ایک شہر جو کھو دیا ہے میں نے اپنی اتنی بڑی زندگی چھوٹے سے ایک بیگ میں رکھی ہوئی ہے‘ چند کپڑے‘ چند تصویریں اور چند کتابیں۔کتابوں سے محبت میرا اثاثہ ہے میں لکھتا رہتا ہوں فکشن ایک علاج بھی ہے اور زندہ رہنے کا بہانہ بھی۔میں رنج و آلام کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں لیکن اس سے بھی زیادہ میں ہومز کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں ہومز جو بہت فراخدل اور مہربان ہے اس شہر کے لوگ آج بھی مجھے حوصلہ دیتے ہیں ہومز میں تمہیں بہت مس کرتا ہوں میں الفاظ تلاش کرنے کی کوشش کروں گا تا کہ دنیا کو بتا سکوں کہ ہومز ایک فٹ نوٹ نہیں ہے۔