گزشتہ دو ہفتوں سے امریکہ اور چین کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے۔ چار فروری کو امریکہ نے ساؤتھ کیرو لائنا سے کچھ دور بحر اوقیانوس پر ایک چینی جاسوس غبارہ ما ر گرایا تھا چین نے اسکے بارے میں کہا تھا کہ یہ موسمی معلومات حاصل کرنے کے لئے چھوڑا گیا تھا اسکی منزل امریکہ نہ تھی مگر غیر موافق ہوائیں اسے اس سمت لے گئیں۔ یہ جاسوس یا آوارہ غبارہ پانچ دن تک امریکہ کی مختلف ریاستوں کے چکر لگاتا رہا ان پانچ دنوں میں امریکہ کی داخلی سیاست کا درجہ حرارت عروج پر تھا ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر کہہ رہے تھے کہ یہ غبارہ چین نے امریکہ کی فوجی تنصیبات کی جاسوسی کرنے کے لئے بھیجا تھا اور اسے جلد سے جلد مار گرانا چاہئے۔ صدر بائیڈن نے اسکے جواب میں کہا کہ اس دو سو فٹ اونچے اور تین بسوں جتنے لمبے غبارے کو انسانی آبادی پر نہیں گرایا جا سکتا۔ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر وں نے بائیڈن انتظامیہ پر چین کے مقابلے میں نرم پالیسی اختیار کرنے کا الزام بھی لگایا۔ ادھر چین نے غبارے کو مار گرائے جانے پر احتجاج کرتے ہوے کہا کہ ایک سپر پاور نے ایک موسمی مشین کی وجہ سے ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ بیجنگ کے اخبار پیپیلز ڈیلی نے لکھاہے کہ امریکہ ایک منقسم معاشرہ ہے اور اسنے اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے اس معمولی واقعے کو ایک عالمی تنازعے میں تبدیل کر دیا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار نے لکھا ہے کہ اس غبارے کے واقعے نے دنیا کو بتایا ہے کہ یہ عالمی طاقت کتنی نا پختہ اور غیر ذمہ دار ہے۔ اسکے جواب میں امریکہ کی نیشنل سیکورٹی کی ترجمان Adrienne Watson نے کہا کہ چین نے گزشتہ سال یہ جاسوسی غبارے چالیس ممالک میں بھیجے تھے اور یہ بیجنگ کے Surveillance Program کا حصہ ہیں۔ترجمان نے کہا کہ چین نے ابھی تک امریکہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی معقول جواز پیش نہیں کیا۔دو ہفتے تک جاری رہنے والے اس سفارتی تصادم میں اسوقت قدرے ٹھہراؤ آیا جب سٹیٹ
ڈیپارٹمنٹ نے یہ خبر دی کہ سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن سترہ فروری کو میونخ میں ہونے والی دو روزہ سیکورٹی کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ Wang Yiسے ملاقات کریں گے۔اتوار کو ہونے والی اس میٹنگ میں دونوں وزرائے خارجہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک نئی سرد جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔اس موقع پرانٹونی بلنکن نے کہا کہ چین نے اگر روس کو یوکرین کے خلاف عسکری امداد دی تو اسکے نتیجے میں سرد جنگ سے بھی زیا دہ خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ انٹونی بلنکن نے میونخ میں ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں کہا کہ بعض انٹیلی جنس معلومات کے مطابق چین عنقریب روس کو عسکری معاونت مہیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ نے کہا کہ صدر بائیڈن صدر شی جن پنگ سے کہہ چکے ہیں کہ چین نے اگر روس کو فوجی امداد دی تو اس سے صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو جائیگی اور بیجنگ کا یہ فیصلہ ایک سرخ لکیر کو عبور کرنے کے مترادف ہو گا۔مبصرین کی رائے میں چین کی اس تنازعے میں اس انداز سے شمولیت اسے دو کی بجائے تین عالمی طاقتوں کی جنگ بنا دے گا۔بیجنگ کے اس ممکنہ اقدام کے بعد اس جنگ میں ایک طرف روس‘ چین‘ ایران اور شمالی کوریا ہوں گے اور دوسری طرف امریکہ‘ یوکرین‘ یورپی ممالک‘ جاپان‘ اور جنوبی کوریا ہوں گے۔میونخ میں صحافیوں نے انٹونی بلنکن سے ان انٹیلی جنس معلومات کے بارے میں استفسار کیا کہ جن میں چین نے مبینہ طور پر روس کو فوجی امداد دینے کی
بات کی ہے اسکے جواب میں سیکرٹری آف سٹیٹ نے کہا کہ وہ اسکی تفصیل بیان نہیں کر سکتے مگر اتنا کہہ سکتے ہیں کہ روس کئی مرتبہ چین سے ہتھیاروں کی فراہمی کا مطالبہ کر چکا ہے اور اب بیجنگ نے اس پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ اس سیکورٹی کانفرنس کے آغاز سے پہلے میونخ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان Wang Wenbin نے کہا کہ چین روس کیساتھ اپنی تزویراتی شراکت داری کو بڑھانے اور باہمی تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کے لئے تیار ہے۔ اس بیان سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ چین جلد یا بدیر روس کو فوجی امداد دینے کا اعلان کر سکتا ہے مگر یہ فیصلہ اس لیے نہایت مشکل ہو گا کہ اسکے بعد امریکہ کے علاوہ یورپی یونین اور برطانیہ بھی چین سے معاشی تعلقات منقطع کر دیں گے۔ گزشتہ دو سالوں میں کووڈ کی وجہ سے چین کی گرتی ہوئی معیشت اسے شاید مغربی ممالک کیساتھ ایک عالمی جنگ کے میدان میں اترنے سے باز رکھے میونخ کانفرنس میں جرمنی‘ فرانس اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرین کی معاشی اور عسکری ہر اعتبار سے بھرپور مدد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔لگتا ہے کہ چوبیس فروری کو یوکرین جنگ کے ایک سال مکمل ہونے سے چند دن پہلے منعقد کی گئی اس کانفرنس میں یورپی ممالک نے امریکہ کی اس پالیسی کو تسلیم کر لیاہے کہ اب اس جنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچائے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔صدر بائیڈن نے اتوار کے دن اچا نک یوکرین کے دارلخلافے Kyiv پہنچ کر نیٹو اتحادیوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ روس کی مکمل شکست تک اس جنگ کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔بیس فروری کے واشنگٹن پوسٹ نے اسے ایک غیر معمولی دورہ قرار دیا ہے The visit, however brief, represented one of the most remarkable presidential trip in modern historyایک سال پہلے روس نے امریکہ کی سرخ لکیر کو عبور کر کے ایک بہت بڑی تباہی کو دعوت دی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ چین امریکہ کی سرخ لکیر کو عبور کرتا ہے یا نہیں۔