جنگی تقریریں  

یہ تو ممکن نہ تھا کہ یوکرین جنگ کو شروع ہوئے پورا ایک سال بیت جاتا اور امریکہ اور روس کے صدور تقریریں نہ کرتے۔صدر بائیڈن اور صدر پیوٹن دونوں نے اس موقع پر دل کھول کر تقریریں کیں‘ دل کی بھڑاس نکالی‘ ایک دوسرے پر الزامات لگائے اور دونوں نے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر کے بھوک اور مہنگائی کے خوف سے سہمی ہوئی دنیا کو مزید خوفزدہ کر دیا۔ صدر بائیڈن تو ساڑھے انیس گھنٹے کا طویل سفر کر کے20 فروری کو اچانک یوکرین کے دارلخلافے کیف جا پہنچے اس سے دو  روز  پہلے صدر امریکہ نے شام کے وقت واشنگٹن کے ایک ریسٹورنٹ میں اپنی اہلیہ جل بائیڈن کے ہمراہ ڈنر کیا۔ ہفتے کی رات نو بجے وہ وائٹ ہاؤس واپس پہنچے اور پھر اسی رات ایک بجے پولینڈ کے لئے روانہ ہو گئے۔ واشنگٹن سے دس گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد وہ پولینڈ کے ایک قصبےPrzemysl Glowny پہنچے وہاں سے وہ ٹرین میں ساڑھے نو گھنٹے کا طویل سفر کر کے پیر کے دن صبح کیف پہنچ گئے۔اس دورے کے انتظامات کے لیے امریکہ‘ پولینڈ اور یوکرین کی حکومتیں خفیہ طریقے سے چھ مہینے تک منصوبہ بندی کرتی رہیں۔اسے اس حد تک صیغہ راز میں رکھا گیاکہ پیر کی صبح واشنگٹن میں صحافیوں کو اسوقت صدر بائیڈن کے یوکرین جانے کا پتہ چلا جب انہوں نے کیف کےMarilinsky Palace میں صدر زیلینسکی سے ملاقات کی۔اس موقع پر تقریر کرتے ہوے صدر بائیڈن نے کہا  ”اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ ہم اس جنگ میں آخر تک یوکرین کے ساتھ کھڑے رہیں گے یہ کسی ایک ملک کی آزادی کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوریت کے بقا کی جنگ ہے“  اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ لگ بھگ دس ہزار میل کا سفر کر کے آئیں‘ ماسکو ان سے صرف سات سو میل کے فاصلے پر ہو اور وہ صدر پیوٹن پر الزامات نہ لگائیں۔فتح کے جذبے سے سرشار امریکی صدر نے اپنے دشمن کے بارے میں کہا کہ Putin's war of conquest is failing. One year later Kyiv stands, Ukraine stands and democracy standsظاہر ہے کہ پیوٹن اگر ایک سال کی بھرپور جنگ کے بعد بھی کیف کو فتح نہیں کرسکے تو انہیں انکی اس ناکامی کا احساس تو صدر بائیڈن نے دلانا تھا اور اتنی دور سے چل کر یوکرین آنے کا مقصد بھی دنیا کو یہ بتانا تھا کہ ایک سال پہلے جس ملک کو فتح کر کے صدر پیوٹن نے تقریر کرنا تھی آج اسی ملک میں میں پوری دنیا سے مخاطب ہوں۔صدر بائیڈن اس اتحادی ملک میں پانچ گھنٹے سے کچھ زیادہ دیرٹھہرے۔ یوکرین کی فضائیں ہر وقت روسی میزائلوں کی زد میں رہتی ہیں صدر پیوٹن کی فضائیہ نے اس ملک کے شہروں اور قصبوں کے انفرا سٹرکچر کو ملیا میٹ کر دیا ہے امریکی صدر کا یہاں چند گھنٹے کا قیام بھی ایک بڑا سیکورٹی رسک تھا۔ واشنگٹن نے اس دورے سے ایک روز پہلے ماسکو کو اطلاع کر دی تھی کہ صدر بائیڈن پیر کے دن کیف جا رہے ہیں۔اس دورے کے بارے میں امریکی میڈیا نے یہ بھی بتایا ہے کہ صدر بائیڈن کی کیف سے واپسی پر سیکرٹ سروس نے سکھ کا سانس لیا۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکی جہاز پیر کے دن یوکرین کی سرحد کے قریب پولینڈ کی فضاؤں میں چکر کاٹتے رہے۔صدر بائیڈن نے منگل اکیس فروری کو وارسا میں ایک دھواں دھار تقریر کی۔اسے سنکر محسوس ہوا کہ کیف میں انہوں نے قدرے نرم لہجے میں بات کی تھی یہ وہ دن تھا جب ماسکو میں صدر پیوٹن نے ایک بڑے سٹیڈیم میں ہزاروں کے مجمعے سے خطاب کر کے صدر بائیڈن کو انکے لگائے ہوے الزامات کا بھرپور جواب دیا۔ اسکے بعد انہوں نے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی اس میٹنگ میں بھی انہوں نے امریکہ کو نشانے کی زد پر رکھا۔بائیڈن اور پیوٹن دونوں نے یوکرین کے بارے میں متضاد بیانیے پیش کیے جس ایک بات پر دونوں متفق تھے وہ یہ تھی کہ جنگ جاری رہیگی۔اسکا اختتام فی الحال ممکن نہیں صدر بائیڈن نے پولینڈ کے دارلخلافے وارسا میں کہا کہ پیوٹن اس خطے کو اس بربریت کے دور میں واپس لے گئے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کا خاصا تھا۔ظاہر ہے کہ مشرقی یورپ کے ممالک دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہوئے تھے اس لیے یہاں اس جنگ کا ذکر بڑا معنی خیز تھا ا وارسا کے Royal Castle کے باہر ہزاروں لوگوں نے امریکہ‘ یوکرین اور پولینڈ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ صدر امریکہ نے اس جوشیلے ہجوم کو مخاطب کرتے ہوے کہا Every day the war continues is his choice. He could end the war with a word.اس تقریر نے ہجوم کو خاصی حد تک محظوظ کیا مگر یہ حقیقت شاید تالیاں بجانے والوں کو معلوم نہ تھی کہ امریکہ اب تک یوکرین کو سو بلین ڈالرزسے زیادہ مالیت کا اسلحہ دے چکا ہے اور یورپی اتحادیوں نے جو سازو سامان دیا ہے وہ اسکے علاوہ ہے۔امریکہ میں تو آجکل یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ تو پیوٹن نے شروع کی تھی مگر امریکہ روس جنگ کا آغاز کس نے کیا تھا۔صدر پیوٹن نے بھی اس سے ملتی جلتی بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے دو ہمسایہ ممالک کے تنازعے کو ایک عالمی تصادم میں تبدیل کر دیا ہے۔ فتح حاصل کرنے تک جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوے صدر پیوٹن نے کہا کہ امریکہ جتنے زیادہ لانگ رینج ہتھیار یوکرین کو دیگا وہ جنگ کو اتنا ہی زیادہ اپنی سرحدوں سے دور دشمن کے علاقے میں لے جائیں گے۔گزشتہ ایک سال میں دو لاکھ سے زیادہ بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کے بعد بھی دو نوں عالمی طاقتوں کے سربراہوں نے بڑی ڈھٹائی سے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ واشنگٹن کے بعض دفاعی ماہرین اسے ایک Frozen Conflict یا منجمد تصادم کہہ رہے ہیں جسکا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کا فاتح کوئی بھی نہ ہو گا۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔