محمد قوی خان میں کئی ایسی خوبیاں تھیں جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں،ایسی یگانہ روزگار ہستیوں کے اخلاقی محاسن‘ مروت و خوش خلقی کو بھلا دینا کم ظرفی ہے میں نے انہیں اتنا قریب سے دیکھا ہے کہ کم ہی کسی کو دیکھا ہو گا، شاید ان کی شخصیت میں اتنی خوبیاں تھیں کہ انہیں نظر انداز کرنا آسان نہ تھا،ان کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اور جتنی ویڈیوز انکی فنی اور ذاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کواُجاگر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں ان میں سے بیشتر میں نے دیکھی ہیں مگر یہ مضامین اور انٹر ویوز نہ جانے کیوں مجھے سطحی اور مصنوعی لگے۔اسکی وجہ یہ نہیں کہ میں ان صاحبان علم و ادب سے زیادہ عالی دماغ ہوں بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ مجھے قوی خان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ پشاور ٹیلیویژن کے 26 اقساط پر مشتمل دو مختلف ڈرامہ سیریلز جو میں نے 1992 اور1993 میں ریکارڈ کئے میں قوی خان نے لیڈ رول ادا کئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام ”نورینہ“ اور دوسرے کا ”شاخسار“تھا انکی ریکارڈنگ کے لیے قوی صاحب ہر ہفتے ریٹرن ٹکٹ پر بائی ایئر لاہور سے آتے،پشاور کلب میں دو تین روز ٹھہرتے اور ریکارڈنگ کراکے چلے جاتے۔ ریہرسل کے لئے انکے پاس وقت نہ ہوتا تھا اور اسکی انہیں ضرورت بھی نہ تھی۔ ریکارڈنگ والے دن پشاور ٹیلیویژن کی کینٹین میں یا سیٹ پر لائٹنگ کے دوران ان سے طویل گفتگو کا موقع ملتا۔ فنکاروں کی اس محفل میں قوی صاحب کی مرنجان مرنج شخصیت انکی کم گوئی کے باوجود ایک گہرا تاثر مرتب کرتی۔ انکے چہرے پر لپکتی ہوئی مخصوص دھیمی دھیمی مسکراہٹ آ ج بھی دل و دماغ پر نقش ہے۔ مہینے میں ایک آدھ مرتبہ جب دور دراز کے کسی پہاڑی مقام پر آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے جانا ہوتا تو وہاں سارا دن کام کاج کے بعد رات دیر تک محفل جمی رہتی اور آنکھیں بوجھل ہونے تک گپ شپ ہوتی رہتی۔ اب وہ وقت گزر گیا ہے اس زمانے کی خوشبو اور کیف آفریں یادیں رہ گئی ہیں۔ افتخار قیصر‘ صلاح الدین اور اب قوی خان کی رحلت کے بعد فیض صاحب کا یہ شعر یاد آ رہا ہے
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمر گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتیں تصویریں تھیں
اس سے ملتا جلتا جمال احسانی کا یہ شعر بھی دستک دے رہا ہے۔
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
ایک دن پشاور سنٹر میں ریکارڈنگ کی تکمیل کے بعد فرصت کے چند لمحات میں میں نے قوی صاحب سے پوچھا کہ آپ اتنے اخراجات کر کے پشاور آتے ہیں آپکو کچھ بچت بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ کہنے لگے میں اسی شہر میں پیدا ہوا‘ بچپن یہیں گزرا مجھے یہاں آ کر سکون ملتا ہے ہر چیز میں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔وہ اکثر صلاح الدین اور افتخار قیصر سے ہندکو میں بات کرتے۔میں نے کئی مرتبہ ان دونوں کو قہقہے لگاتے اور قوی صاحب کو مسکراتے ہوے دیکھا ہے۔ایک دفعہ مارچ کے مہینے میں ہم نتھیا گلی شوٹنگ کے لئے گئے ہوئے تھے، کڑاکے دار سردی تھی رات کے وقت برف باری بھی ہوتی۔ لاہور کی ایک مشہور فنکارہ نے اس سیریل میں شروع سے آخر تک میرا خوب امتحان لیا۔ایک دن صبح کے وقت مجھے میک اپ آرٹسٹ نے کہا کہ وہ خاتون تو میک اپ نہیں کروا رہیں۔میں نے وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ وہ کہتی ہیں کہ قوی خان کو ہر سکرپٹ میں زیادہ لائنیں ملتی ہیں اور مجھے کم اس سے میری سبکی ہوتی ہے وہ خاتون جنکا نام میں آج تیس برس گزر جانے کے بعد بھی لینا مناسب نہیں سمجھتا نے اس ڈرامہ سیریل میں قوی خان کی بیوی کا کردار ادا کیا تھا۔ان دونوں فنکاروں کی شاندار پرفارمنس کی وجہ سے”نورینہ“ خاصا مقبول ہواتھا۔میرے لیے قوی خان کے سکرپٹ میں تخفیف کرنا آسان بات نہ تھی۔ قوی صاحب کو جب پتہ چلا تو انہوں نے مجھ سے کہا آپ سکرپٹ تبدیل کر دیں اور خاتون کو ناراض نہ کریں میں نے ایسا ہی کیا اور بڑی مشکل سے انہیں کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ ڈھائی سو فلموں اور سینکڑوں ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کے بعد قوی صاحب کے لئے دو چار مکالموں کی بھلا کیا اہمیت ہو سکتی تھی۔یہ تو ایک عام سا واقعہ تھا مگر اس کام کاج کے دوران کچھ لمحات ایسے بھی آئے جب میں نے اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا ”شاخسار“ کی ریکارڈنگ کے دنوں میں قوی صاحب نے پشاور میں کام ختم کر کے فلائٹ لے کر واپس لاہور جانا ہوتا تھا وہاں وہ رات آٹھ بجے تھیٹر میں لاہور کے نامی گرامی فنکاروں کے ہمراہ پرفارم کرتے تھے۔پشاور ایئر پورٹ سے وہ شام پانچ بجے فلائٹ لیتے اور سات بجے لاہورپہنچ جاتے میرا کام انکی ریکارڈنگ چار بجے ختم کر کے انہیں بر وقت ایئر پورٹ پہنچانا ہوتا تھا۔یہ نہایت مشکل کام تھا اکثر پشاور سنٹر میں گاڑی نہ ملتی تو میں کبھی انہیں خود ایئر پورٹ لے جاتا اور کبھی کسی کے ہمراہ بھجوا دیتا اس دوران میں نے انہیں کبھی ٹینشن یا غصے میں نہیں دیکھا۔وہ بڑے تحمل اور برد باری کے ساتھ ٹی وی سے ایئر پورٹ کا سفر کرتے اور رخصت ہوتے وقت انکی مخصوص دلربا قسم کی مسکراہٹ انکے چہرے پر ہویدا ہوتی۔
وداع یار کا منظر نہیں ہے یاد فراز
بس ایک ڈوبتا سورج مری نظر میں رہا
میرے لیے قوی خان کی یہ بات ناقابل فراموش ہے‘ میں نے ان سے پوچھا کہ قوی صاحب اتنے طویل عرصے میں آپ نے کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا،کوئی شکایت نہیں کی،آخر اسکی کیا وجہ ہے۔ کہنے لگے آپ کے ساتھ کنٹریکٹ سائن کرنے کے بعد یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں آپ سے مکمل تعاون کروں۔وقت پر میک اپ کرا کے سٹودیو میں موجود رہوں تا کہ آپکو پریشانی نہ ہو آج مجھے یاد پڑتا ہے کہ مجھے کبھی بھی اسسٹنٹ کو قوی صاحب کو تلاش کرنے کے لیے نہیں بھیجنا پڑا۔وہ ہمیشہ دستیاب رہتے‘ وہ ڈسپلن کے پابند‘ عالی ظرف‘ غنی مزاج اور وسیع النظر تھے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں اس ہمدم دیرینہ کی شخصیت کا احاطہ حسب خواہش نہیں کر سکا اس اعتبار سے وہ تمام مضامینمیرے اس کالم سے بہتر ہیں جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔
کل صبح کے دامن میں تم ہو گے نہ ہم ہوں گے
بس خاک کے سینے پر کچھ نقش قدم ہوں گے