ہر ما ہر اور منجھا ہوا ڈرامہ نگار ایک سے زیادہ پلاٹ بنا کر کہانی اور کرداروں کو آگے بڑھاتاہے بعض اوقات ایک سب پلاٹ اتنا مضبوط ہو تا ہے کہ مین پلاٹ پیچھے رہ جاتا ہے دس مارچ کو بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونیوالے سیکورٹی معاہدے کے Game Changer ہونے میں کوئی شک نہیں مگراس معاہدے کا ایک سب پلاٹ بھی ہے جس پر آگے چل کر بات ہو گی پہلے اس کہانی کے مین پلاٹ اور مرکزی کرداروں کے ارادوں‘ جوڑ توڑ اور حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے ہیں مشرق وسطیٰ کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ یہ پچھلے سات عشروں سے امریکہ کی پسندیدہ رزم گاہ بنا ہواہے اس خطے میں حکومتیں بدلنا‘ ڈکٹیٹروں کو نوازنا اور دشمنوں کو پچھاڑنا انکل سام کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اب چین نے سعودی عرب اور ایران جیسے پرانے دشمنوں کو ایک میز پر بٹھا کر جو سفارتی بریک تھرو کیا ہے اس نے ایک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اسکے بارے میں نیویارک ٹائمز کے رپورٹرer Peter Bak نے بارہ مارچ کے پہلے صفحے کی خبر میں لکھا ہے It is a shift that left heads spinning in capitals around the globe یعنی یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے دنیا بھر کے دارالخلافوں میں لوگوں کے سر چکرا دئیے ہیں ظاہر ہے ایک مضبوط مرکزی کردار کے ہوتے ہوے ایک کمزور ولن اچانک بازی الٹ کے رکھ دیتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے دوسری صف کے اہم کردار ہیرو کو چھوڑ کر ولن کے پیچھے آ کھڑے ہوتے ہیں ہیرو سٹپٹا جاتا ہے مگر فوراً ہوش و حواس سنبھالتا ہے اور جواب دیتا ہے کہ یہ اچھی بات ہے کہ اب جنگ و جدل ختم ہو گی اور امن قائم ہو گا۔سفید محل کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہمیں سعودی عرب نے پہلے ہی سے بتا دیا تھا کہ مذاکرات ہو رہے ہیں یہ ہمارے لیے اچھنبے کی بات نہیں ان سے کسی نے ابھی تک یہ نہیں پوچھا کہ مذاکرات تو دو سال سے عراق اور اومان میں بھی ہو رہے تھے مگر یہ شد بد کسی کو نہ تھی کہ چین اچانک دونوں بڑے کرداروں کو آمنے سامنے بٹھا کر ایک معاہدے پر دستخط کرو الے گا
اس معاہدے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ ایک سیکورٹی معاہدہ ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ان دونوں ممالک میں 2000 اور 2014 میں جو سیکورٹی معاہدے ہوے تھے یہ انکی تجدید ہے اس افہام و تفہیم کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ایران اب یمن میں حوثی جنگجوؤں کی طرف سے ریاض پر حملوں کی حوصلہ افزائی نہیں کریگا۔ان دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگ گذشتہ آٹھ برس سے جاری ہے۔اس معاہدے کی رو سے سعودی عرب اور ایران دو ماہ میں سفارتخانے کھول کر معاشی اور سفارتی سرگرمیوں کا آغاز کر دیں گے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی قومی سلامتی کا احترام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے
امریکہ میں سعودی عرب اورایران دوستی کے امکانات نے کھلبلی تو مچا دی ہے مگر مختلف ادارے اور تھنک ٹینکس اسے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ کئی برسوں سے مشرق وسطیٰ کے معاملات سے اغماز برت رہاتھا جس کی وجہ سے اس خطے میں ایک تزویراتی خلا پیدا ہو گیا تھا جسے چین نے بڑی ہوشیاری سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کے چیف ایگزیکٹیو Mark Dubowitz نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب امریکہ پر اعتماد نہیں کرتا اور ایران نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کے ایک اہم اتحادی کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی عالمی تنہائی کو ختم کر دیا ہے۔اس بڑی تزویراتی تبدیلی کو جس انداز سے بھی دیکھا جائے ا سکے چند ناقابل تردید حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ چین پہلی مرتبہ اس خطے میں ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایران مخالف عرب اتحاد کی سربراہی کا جو خواب دیکھا تھا وہ بکھر گیا ہے۔ اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر Yair Lapid نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ اسرائیلی حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل اور خطرناک ناکامی ہے۔
یہ جمعہ دس مارچ کو بیجنگ میں ہونیوالے معاہدے کی چند تفصیلات اور مضمرات تھے اس سے ایک دن پہلے امریکی اخبارات نے یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی تھی کہ سعودی عرب نے واشنگٹن سے کہا ہے کہ وہ اسے سول نیوکلیئر پروگرام دینے کے علاوہ اسلحہ فروخت کرنے پر عائد شدہ پابندیاں بھی ختم کردے تو اسکے بدلے میں ریاض‘ تل ابیب کیساتھ تعلقات بحال کر دیگا اس پیشکش کے بارے میں اسی روز کے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے If sealed, the deal could set up a major political realignment of the Middle East یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ‘ سعودی عرب کی یہ پیشکش قبول کر لے تو پھر کیا ہو گا ظاہر ہے سعودی حکمرانوں کو سول جوہری پروگرام ملنے کے علاوہ ڈھیروں جدید اسلحہ بھی مل جائیگا اسکے بعد ریاض‘ تل ابیب کیساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیگا ایسا ہوتا ہے یا نہیں اسکے بارے میں فی لحال کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہ طے ہے کہ سعودی عرب نے ایک کارڈ ٹیبل پر رکھ دیا ہے اور امریکہ کو اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اگر مشرق وسطیٰ میں واپس آنا چاہتا ہے تو اسکے لیے دروازہ کھلا ہے مگر اس مرتبہ رولز آف دی گیم مختلف ہوں گے امریکہ نے ابھی تک اسکا جواب نہیں دیا اسے جلدی کرنے کی ضرورت بھی نہیں مگر سب جان گئے ہیں کہ اس ڈرامے کا ایک سب پلاٹ بھی ہے جس کے کردار کسی بھی وقت سامنے آ کر بازی پلٹ سکتے ہیں اسمیں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے اس Balancing Act نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔