عراق جنگ کے مفروضے

وائٹ ہاؤس میں صدر جس جماعت کا بھی ہو اسکی مشاورت کے لئے ملک بھر سے تجربہ کار اور منجھے ہوے افراد اکٹھے کیے جاتے ہیں یہ نابغہ روزگار لوگ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے حقائق کو چھان پھٹک کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ ایسے عبقریوں کے ہوتے ہوئے جارج ڈبلیو بش نے عراق پر حملے کا اتنا غلط اور تباہ کن فیصلہ کیسے کیا اس سوال کا جواب عراق جنگ کے دوران ہی ڈھونڈھ لیا گیا تھامگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نت نئے حقائق بھی سامنے آتے رہے۔اس ہولناک جنگ کے بیس برس بعد آ ج امریکی میڈیا ایک مرتبہ پھر یہ سوچ بچار کر رہا ہے کہ اتنے غلط فیصلے کی وجوہات کیا تھیں فروری 2003 میں صدر بش کی کابینہ میں ہونے والے بحث مباحثوں کا اگر آج جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صدر بش اور انکی کچن کیبنٹ بغداد پر حملے کا فیصلہ بہت پہلے کر چکی تھی، اسکے بعد صلاح مشوروں کی خبریں محض عوام الناس کو قائل کرنے کے لئے دی گئی تھیں یہ بات سب جانتے تھے کہ صدر بش کے مشاہیر میں دو طاقت ور دھڑے یا لابیاں شامل تھیں ان میں سے ایک اسرائیل نواز یہودی لابی تھی اور دوسری نائب صدر ڈک چینی اور ڈیفنس سیکرٹری ڈونلڈ رمز فیلڈ کی تھی یہ دوونوں دھڑے اس بات پر متفق تھے کہ صدام حسین اسرائیل کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کو راستے سے ہٹا کر پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفروضہ امریکی میڈیا میں بہت کم زیر بحث آیا ہے آجکل تو اسکا ذکر تک نہیں ہو رہا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ عراق جنگ کے دوران ہی یہ تاثر عام ہو گیا تھا کہ امریکی یہودیوں نے جارج بش کو عراق پر حملے کے لئے استعمال کیا ہے جب یہ حقائق سامنے آ گئے کہ اس جنگ پر دو کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں اور 8500 کے لگ بھگ امریکی فوجی اور کنٹریکٹرز ہلاک ہو چکے ہیں تو پھر یہودیوں کے خلاف جذبات اُبھرنے لگے اسکے نتیجے میں واشنگٹن میں یہودی لابی کا اثر رسوخ کم ہونے لگا۔اس مخاصمت کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں تقویت ملی سفید فام قوم پرست ان دنوں کھلم کھلا یہودیوں کی مخالفت کرتے تھے۔امریکی میڈیا میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق یہودی کمیونٹی سے ہے۔ ان میڈیا شخصیتوں نے دبے لفظوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ جارج بش کی تمام تر فیصلہ سازی تو ڈک چینی اور ڈونلڈ رمز فیلڈ کے ہاتھ میں تھی، ہربرٹ واکر بش کے ان دوستوں کے ہوتے ہوئے بھلا کسی کی کیا مجال تھی کہ وہ جارج ڈبلیو بش سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا سکتا اب کیونکہ ان دو کا دفاع کرنے والے صحافی یا تو ریٹائر ہو چکے ہیں اور یا آنجہانی ہو گئے ہیں اس لیے انکے مخالفین کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔میڈیا میں اپنے حریفوں کو شکست دینا کتنا باریک اور شاطرانہ کام ہے اسکا اندازہ بیس مارچ کے دی نیو یارک ٹائمز کے صفحہ اوّل کے اس تجزیے سے لگایا جا سکتا ہے جسکا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے کہ عراق میں امریکی فوجی بھیجنے سے ایک ماہ  پہلے ڈونلڈ رمز فیلڈ سے لیفٹننٹ جنرل Jay Garner جنہیں عراق میں ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی نے کہا کہ اس جنگ میں امریکہ کے اربوں ڈالر لگ جائیں گے اسکے جواب میں رمز فیلڈ نے کہا My friend, if you think we are going to spend a billion dollars of our money over there, you are sadly mistaken اس سے آگے تجزیہ نگار Robert Draper نے بڑی مہارت سے اس جنگ کا سارا ملبہ ڈونلڈ رمز فیلڈ پر پھینک دیا ہے، صدر بش کے ڈیفنس سیکرٹری واشنگٹن میں اکھاڑ پچھاڑ کے کم از کم چالیس سال پرانے تجربے کی وجہ سے ان دنوں خاصے پر اعتماد اور منہ پھٹ واقع ہوئے تھے۔ عراق جنگ شروع ہونے سے پہلے انکا دیا ہوا یہ بیان بھی کئی مرتبہ میڈیا میں آ چکا ہے ” یہ جنگ پانچ دن‘ پانچ ہفتے یا پانچ مہینے تو جاری رہ سکتی ہے مگر یہ کسی بھی صورت میں اس سے زیادہ طویل نہ ہو گی“صدر بش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکا خیال یہ تھا کہ عراق کے لوگ امریکی فوج کا استقبال کریں گے اور صدام حسین جیسے ڈکٹیٹر سے نجات ملنے پر انہیں جو آزادی ملے گی وہ انہیں امریکہ کا گرویدہ بنا دے گی اور عالمی برادری بھی اس رجیم چینج کے بعد بڑھ چڑھ کر عراق کی تعمیر نو میں حصہ لے گی۔ان میں سے کوئی ایک خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوایہ جنگ اس حدتک امریکہ کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہے کہ دو مرتبہ انخلا کے باوجود بھی دو ہزار فوجی جنہیں انسٹرکٹرز کہا جا تاہے ابھی تک بغداد میں موجود ہیں ان دو میں سے پہلا انخلا دسمبر 2011  میں ہوا تھااور دوسرا  9  دسمبر 2021 کو مکمل ہوا۔یہ جنگ جو ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی کے آغاز میں جتنے جھوٹ بولے گئے وہ کئی کتابوں کا حصہ بن چکے ہیں۔پہلے یہ کہا گیا کہ صدام حسین کے پاس جوہری اور کیمیائی ہتھیار ہیں‘ پھر صدام اور بن لادن کے تعلقات کا فسانہ گھڑا گیا۔ اسوقت تندور گرم تھا اسمیں یہ روٹی بھی لگا دی گئی کہ صدام حسین نے ایٹم بم بنانے کے لیے تیونس سے بڑی مقدار میں یورینیم درآمد کیا ہے۔ جب اس طرح کے بے شمار جھوٹ ثابت نہ ہوسکے تو پھر یہ پوچھا جانے لگاکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اتنی فراوانی سے جھوٹ کیوں بولا۔ ایجنسیاں آج تک تجزیہ کاروں کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں اس دانشورانہ شغل میں کبھی کبھار یہ اقرار بھی کر لیا جاتا ہے کہ عراق کے پانچ لاکھ سے زیادہ شہری اس مہم جوئی میں کام آئے۔یہ سوال کسی نے نہیں پوچھا کہ کہ اس ہولناک تباہی کے بعد عراق کی تعمیر نو کا کیا بنے گا اور مشرق وسطیٰ میں شجر جمہوریت پر کب برگ و بار پھوٹیں گے۔فی لحال مسمار شدہ ملک کے باشندوں کو اسی تسلی کو کافی سمجھنا ہو گا کہ ان پر برپاکی گئی جنگ کے تمام مفروضوں اور دروغ بیانی کو بڑی ڈھٹائی سے بر سر عام قبول کر لیا گیا ہے اس سے زیادہ اب ہو بھی کیا سکتا ہے۔قہر درویش بر جان درویش کے مصداق اس ہلاکت خیزی کو برداشت کرنے کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔