ناقابلِ فراموش جمیل آفریدی

 امریکی دانشورÿ Todd Henr کی2013 میں شائع ہونیوالی کتاب Die Emptyلاکھوں کی تعداد میں بک چکی ہے ۔دو سو سترہ صفحات پر مشتمل اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہے اور یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے کہ ہم ان تمام صلاحیتوں کا اظہار کر دیں اور خالی خولی اس دنیا سے چلے جائیں۔یعنی دنیا نے جو کچھ ہمیں دیا ہے وہ اسے لوٹا دیںTod Henry نے اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ اسے یہ خیال جارج برنارڈ شاہ کی یہ سطور پڑ ھ کر آیا I want to be thoroughly used up when I die, for the harder I work the more I live. یہ سطور پڑھتے ہوئے مجھے منیر نیازی یاد آئے انکا ” کلیات منیر“ کھولا اور ” بچوں جیسی باتیں“ کے عنوان سے لکھی ہوئی نظم پڑھی آپ بھی اس سے لطف اندوز ہوں۔
آج کا کام نہ کل پر ٹالو۔۔۔۔۔ جو کچھ لکھنا ہے لکھ ڈالو
ادھر ادھر کی جھوٹی باتیں۔۔۔۔ ذرا ذرا سی جیتیں ماتیں
جانے پھر کب موت آ جائے۔۔ دل کی دل ہی میں رہ جائے۔
یہ نظم پڑھ کر خیال آیا کہ میں بھی تو بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دل کے نہاں خانوں میں کچھ ایسے لوگ بستے ہیں جو مجھے بہت عزیز ہیں ۔یہ لوگ اتنے مہربان‘ خوش مزاج اور عالی دماغ تھے کہ انکی شخصیت کا سحر آج تک ذہن پر طاری ہے۔ایسے ناقابل فراموش لوگوں میں سے ایک جمیل آفریدی تھے۔ انہیں پشاور ٹیلیویژن کے پہلے جنرل منیجر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آفریدی صاحب نے فرانس کی ایک یونیورسٹی سے Interior Design کی ڈگری حاصل کی تھی‘ وہ 1971 سے 1974 تک کراچی ٹیلی ویژن سینٹر میںچیف ڈیزائنر رہے تھے۔ اسکے بعد انکی ٹرانسفر پشاور ہو گئی۔آفریدی صاحب درمیانے قد‘ سفید رنگت اور تجسس سے بھرپور آنکھوں والے ہنستے مسکراتے انسان تھے ۔اتنے کم گو کہ انکے بولنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ وہ دوسروں کو سننا زیادہ پسند کرتے تھے۔پشاور ٹیلی ویژن کی ہفتہ وار پروگرام میٹنگز میں اکثر شکایات زیر بحث رہتی تھیں۔یہ 1975--76 کی بات ہے پشاور سنٹر کو شروع ہوئے چند ہی ماہ گزرے تھے۔ ڈیزائن‘ پروگرام‘ انجینئرنگ‘ اکاﺅنٹس اور ایڈمنسٹریشن کے شعبوں کے سربراہ لاہور اور
 کراچی سے آئے تھے۔ باقی کے سٹاف کا تعلق پشاور‘ ہزارہ‘ جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں سے تھا۔ جوش و جذبے کی فراوانی تھی۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش میں تھا۔ اس جنوں خیزی میں کام خوب ہو رہا تھا۔ پشاور سینٹرنے دو اکتوبر1974 کو کام شروع کرتے ہی نیوز‘ ڈرامہ‘ میوزک اور ڈاکومنٹریز میں لاہور اور کراچی کا مقابلہ شروع کر دیا تھا۔ پانچ سو کے لگ بھگ سٹاف میںسے ہر کوئی جمیل آفریدی کے حسنِ اخلاق کا گرویدہ تھا۔سب جانتے تھے کہ کوئی غلطی ہو گئی تو آفریدی صاحب نے تھوڑی سی باز پرس ہی کرنی ہے۔پروگرام پروڈیوسرز اکثر ٹرانسپورٹ نہ ملنے کا گلہ کرتے۔ اسکے جواب میں ٹرانسپورٹ انچارج آرٹسٹوں کے تاخیر سے آنے کی شکایت کرتے۔میں نے ایک مرتبہ آفریدی صاحب سے کہا کہ بعض شکایات غیر ضروری ہوتی ہیں آپ انہیں بھی خاموشی سے سنتے رہتے ہیں۔وہ پہلے مسکرائے‘ پھرکہاFull hearing is half the solution یعنی پوری بات سن لینے سے آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہوتا ہوا نظر بھی آ رہا تھالوگ پورا ماجرا بیان کر دینے کے بعد پر سکون ہو جاتے تھے۔یہ انتظام و انصرام کا ایسا طریقہ تھا جس میں ڈانٹ ڈپٹ اور سزا کا تصور نہ تھا ۔لوگ محنت اور دیانت داری سے کام کرتے تھے۔ یہ خوبصورت اور توانا ماحول آفریدی صاحب کی شخصیت کا کرشمہ تھا۔فورٹ روڈ پر گورنر ہاﺅس سے تھوڑے سے فاصلے پر ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے بالکل سامنے پشاور ٹیلی ویژن سنٹر تمام تر مشکلات کے باوجود کامیابی سے رواں دواں تھا اردو‘ پشتو اور ہندکو میں ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام تواتر سے ٹیلی کاسٹ ہو تے تھے۔ پروگرام سیکشن کے باہر شام کو آرٹسٹوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ چھوٹے سے سٹوڈیو میں رات گئے تک ریکارڈنگ ہوتی رہتی تھی۔ پھر
 پانچ جولائی 1977کو ضیاءالحق کے مارشل لا نے کایا کلپ کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نقشہ بدل گیا۔پاکستان ٹیلیو یژن کے پانچوں سینٹرزسے درجنوں یونین لیڈر گرفتارکر کے جیلوں میں ڈال دیئے گئے۔ٹیلیویژن ہیڈ کوارٹر نے آفریدی صاحب کو واپس ڈیزائن سیکشن کراچی ٹرانسفر کر دیا۔ انہوں نے وہاں جانے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا ۔ یوں ایک سنہرا دور اختتام پذیر ہوا۔ میں جیل سے رہا ہونے کے بعد 1980 میں امریکہ چلا آیا۔ چار برس بعد جمیل آفریدی بھی نیو یارک آپہنچے۔کسے معلوم تھا کہ آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔آفریدی صاحب شروع کے چند ماہ پشاور کے ممتاز صحافی‘ شاعر اور ادیب جوہرمیر صاحب کے ہاں قیام پذیر رہے۔ پھر انہیں بروکلین میںجاب مل گئی اور اسکے قریب ہی کرایے پر ایک سٹوڈیو اپارٹمنٹ بھی۔ ایک دن پتہ چلا کہ آفریدی صاحب کے گھر میں چوری ہوئی ہے۔ وہ اسوقت جاب پر تھے۔ اگلے روز میں نے فون پر خیریت پوچھی تو ہنستے ہوے کہنے لگے کہ یار چوروں کو مجھ پر رحم آ گیا۔ وہ کھڑکی توڑ کر داخل ہوئے مگر خالی گھر دیکھ کر چلے گئے اتنے رحم دل تھے کہ میز پر کچھ کیش پڑی ہوئی تھی اسے بھی رہنے دیا۔ یہ ایک حادثہ تو تھا مگر درویش صفت جمیل آفریدی نے اسے زیادہ اہمیت نہ دی۔ وقت گزرتا گیا۔ مہینے میں ایک آدھ مرتبہ حجرہ میر میں آفریدی صاحب سے ملاقات ہو جاتی۔ دیر تک پشاور ٹیلی ویژن کی باتیں ہوتی رہتیں۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ آفریدی صاحب واپس پاکستان جا رہے ہیںایمیگریشن والوں نے انہیں عدالت میں پیش کیاتھا۔ ایک دوست نے بتایا کہ جج آفریدی صاحب سے رعایت برتنا چاہ رہا تھا مگر اسکے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ اگر مجھے اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہتے تو میں چلا جاﺅں گا۔ بعد میں دوستوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر آفریدی صاحب فیصلہ کر چکے تھے ۔انہوں نے اپنا بیگ اٹھایا اور کراچی چلے گئے ۔میں نے انکا کھوج لگانے کی بڑی کوشش کی مگر بات نہ ہوسکی۔ دو سال پہلے پتہ چلا کہ وہ ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے ہیں۔ انکی نرم و گداز شخصیت اور انسان دوستی آج تک میرے لئے مشعل راہ ہے پشاور ٹیلی ویژن کے دوستوں سے جب بھی بات چیت ہوتی ہے آفریدی صاحب کا ذکر ضرور ہوتا ہے ایسے لوگ کبھی نہیں مرتے۔ انکی مروت اور خوبیوں کا ذکر مجھ پر قرض تھا جو شاید ادا ہو گیاہے۔