منگل کے دن دوپہر دو بجے ڈونلڈ ٹرمپ نیو یارک سٹی کی عدالت میں ایک کریمینل کیس میں پیش ہوئے۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک سابق صدر پر فرد جرم لگائی گئی ہو اور اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہو کر اپنے خلاف الزامات کی فہرست سننا پڑی ہو۔پیشی کے وقت سینکڑوں کی تعداد میں پولیس اہلکار ڈاؤن ٹاؤن مین ہیٹن کے علاقے میں عدالت کے ارد گرد تعینات کر دئیے گئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نیو یارک میں رہائش گاہ اور کاروباری دفاتر کی عمارت ٹرمپ ٹاور کے ارد گرد بھاری نفری کھڑی کرنے کے علاوہ رکاوٹوں کے حصار بھی بنا دئے گئے تھے۔ میڈیاسابقہ صدر کے فلوریڈا میں اپنے رہائشی کلب Mar-A - Lago سے ایک خصوصی طیارے میں روانہ کے بعدسے پَل پَل کی خبر دے رہا تھا۔نیو یارک کے LaGuardia Airport پر سینکڑوں کیمرے انکے منتظر تھے۔ ناقدین کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اور کیا چاہیے‘ اسے جس توجہ اور شہرت کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے وہ اسے مل رہی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسکی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ ملنے والی اضافی شہرت میں بدنامی اور رسوائی کا عنصر بھی شامل ہے۔سابقہ صدر کے خلاف مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی Alvin Bragg نے جو فرد جرم عائدکیا اس کا کلیدی نقطہ یہ ہے کہ ملزم نے 2016 کے صدارتی انتخاب سے پہلے ایک Porn Star جسکا نام Stormy Daniels ہے کو اپنے وکیل Michael Cohen کے ذریعے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر دیکر خاموش رہنے پر آمادہ کیا تھا۔مائیکل کوہن اس مقدمے میں اقبال جرم کر کے دو سال قید کاٹ چکا ہے اور اب وہ استغاثہ کا کلیدی گواہ یا Star Witness ہے اتنے مضبوط گواہ اور کئی دیگر اہم ثبوت اور شہادتیں ہونے کے باوجود بعض ماہرین کی رائے میں یہ مقدمہ اس لیے کمزور ہے کہ کسی کو رقم دیکر خاموش کرانا ایک Misdemeanor ہے جس کے ثابت ہونے پر عام طور پر قید کی سزا نہیں ہوتی یا پھر زیادہ سے زیادہ مجرم کوچند ماہ کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ Hush Money یا خاموش رہنے کی رقم کیونکہ صدارتی انتخاب سے چند ہفتے پہلے دی گئی تھی اس لیے اسکا تعلق امریکہ کی انتخابی سیاست سے بنتا ہے ڈسٹرکٹ اٹارنی Alvin Bragg اس مقدمے میں یہ مؤقف اختیار کریں گے کہ اگر یہ رقم نہ دی جاتی تو Stormy Daniels جنکا اصلی نام Stephanie Clifford ہے خاموش نہ رہتیں‘ وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی دوستی کی داستان بیان کر دیتیں اور یوں سات برس پہلے ہونے والے صدارتی انتخاب کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ بہ الفاظ دیگر ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ ہلِری کلنٹن صدر امریکہ منتخب ہو جاتیں۔
Alvin Bragg کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کے ووٹ لیکر ڈسٹرکٹ اٹارنی بنے ہیں اس لیے ریپبلیکن پارٹی فی لحال اپنے اندرونی اختلافات بھلا کر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس الزام کی حمایت کر رہی ہے کہ یہ مقدمہ ایک ایسا سیاسی انتقام ہے جس میں ڈیمو کریٹک پارٹی نظام انصاف کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کے اس اتحاد کی وجہ سے گذشتہ ایک ہفتہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں گیارہ پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے اور وہ 2024 کی صدارتی مہم کے اس مرحلے پر اپنے قریب ترین مخالف Ronald Desantis سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ ریپبلیکن پارٹی کے اندر سابقہ صدر کے پرستاروں کی جو Base ہے وہ اپنے لیڈر کے خلاف کچھ بھی نہیں سننا چاہتی۔ یہ پرستار پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ انکے لیڈر کا کردار کیا ہے‘ وہ زندگی بھر کیا کچھ کرتا رہا ہے لیکن اسکے باوجود وہ دو مرتبہ پہلے بھی اسے صدر بنا نے کے لیے ووٹ دے چکے ہیں اور اب وہ ایک مرتبہ پھر اسے وائٹ ہاؤس بھجوانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اس فین کلب سے یہ امید کرنا کہ وہ اپنے ہیرو کو میدان جنگ میں اکیلا چھوڑ دے گا احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہے۔ انکی ایک بڑی تعداد کا منگل کے دن مین ہٹن کی عدالت کے باہر مظاہرہ کرنے کا امکان ہے اسی لیے پولیس بھی کیل کانٹے سے لیس ہو کر عدالت کے باہر کھڑی ہوگی۔ نیویارک شہر کی انتظامیہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسی قسم کے ایک ہجوم نے چھ جنوری 2021 کو واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور عمارت میں واقع سرکاری دفاتر کو بھاری نقصان پہنچا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ صدربننے سے پہلے ٹیلیویژن سٹار تھاوہ ہر روزسکرین پر لوگوں کے سامنے رہنے کی اہمیت کا اظہار کئی مرتبہ چکا ہے۔ اس نے ایک صحافی سے کہا تھا کہ ایک بڑے سٹار کیلئے ہر قسم کی پبلیسٹی اچھی ہوتی ہے اسی مقولے پر عمل کرتے ہوے ٹرمپ نے چند روز پہلے اپنے پرستاروں کو فنڈ ریزنگ ای میلز بھیجی ہیں اور انکے اپنے کہنے کے مطابق انہیں چوبیس گھنٹوں میں چار ملین ڈالر وصول ہوئے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے سوشل میڈیا پر ڈسٹرکٹ اٹارنی کے خلاف مہم شروع کرنے کے علاوہ اس مقدمے کے جج جسٹس Juan Merchan کے بارے میں لکھا ہے کہ” وہ پہلے بھی چند مقدمات میں میرے خلاف فیصلے دے چکے ہیں اس لیے وہ مجھ سے نفرت کرنے والے ایکked nd Pic Haجج ہیں“ دوسری طرف انکے وکلاء کی ٹیم انہیں خاموش رہنے اور توہین عدالت کے ایک نئے مقدمے میں الجھنے سے گریز کرنیکا مشورہ دے رہی ہے۔ اسکے باوجود کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ عدالت میں کیا طرز عمل اختیار کریں گے۔ اسی بے یقینی نے اس مقدمے کو دلچسپ ہونے کے علاوہ خطرناک بھی بنا دیا ہے۔