اسرائیل کی شمالی سرحدوں پرلبنان کے عسکری گروہ حزب اللہ کا حملہ ہو یا تل ابیب‘ یروشلم اور دوسرے شہروں میں ہر روز ہزاروں لوگوں کے حکومت مخالف مظاہرے ہوں‘ سب کے ڈانڈے اس ظلم و ستم اور سفاکی سے جاملتے ہیں جو طاقت کے بل بوتے پر بننے والی اس ریاست نے گزشتہ 74 برسوں سے مظلوم اور ستم رسیدہ فلسطینیوں پر روا رکھا ہواہے۔ چند روز پہلے لبنان سے اسرائیل کے سرحدی گاؤں Shalomi پر 34 راکٹ پھینکے گئے‘ اس حملے میں غازہ کے عسکری گروہ حماس نے حزب اللہ سے بھرپور تعاون کیا۔ حماس نے لبنان کا رخ اس لیے کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو غازہ کی شہری آبادی پر فضائی حملے کرنے کا جواز نہیں دینا چاہتی۔ بنجامن نتن یاہو کی حکومت نے لبنان اور غازہ دونوں جگہوں پر جوابی حملے کیے مگر جانی نقصان پہنچانے سے گریز کیا۔اس تصادم میں دونوں اطراف سے دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ حماس نے اسرائیل کے سرحدی گاؤں پر راکٹ ا س لیے برسائے کہ یروشلم کی پولیس نے رمضان مبارک کے آغاز ہی سے مسجداقصیٰ کا محاصرہ کیا ہواہے۔ اس مقدس عبادت گاہ میں نمازیوں کی صفیں توڑ کر انہیں مسجد سے باہر دھکیلنے کی ویڈیو کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر دیکھی جا رہی ہے۔ پولیس اب تک 350 سے زیادہ مسلمانوں کو گرفتار کر چکی ہے۔ ویسٹ بینک میں ہر روز پولیس کے مسلح دستے‘ نوجوان فلسطینیوں کو ہلاک کرتے رہتے ہیں۔
مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے اس بہیمانہ تشدد کے بارے میں ایک تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ ان ویڈیوزپر اگر یوکرین لکھ دیا جائے تو مغربی میڈیا دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان برپا کر دیگا۔ یہ تشدد کیونکہ فلسطین میں ہو رہا ہے اس لیے اسکا پوچھنے والا کوئی نہیں۔اسرائیلی پولیس ویسٹ بینک میں جنین‘ رما لہ اور Nablus کے مقبوضہ شہروں میں خواتین پر تشدد کرتی ہے تو کہیں سے بھی وومن رائیٹس اور ہیومن رائیٹس کی آوازیں نہیں آتیں۔ایسے میں واشنگٹن سے صرف ایک بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کو اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہئے۔
گزشتہ تین ماہ سے صیہونی ریاست کے طول و عرض میں ہونیوالے مظاہروں کی تہہ میں بھی اقلیتوں کے حقوق کا جھگڑا چھپا ہوا ہے۔ بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ نتن یاہو حکومت اور اسکے انتہا پسند اتحادی‘ ججوں کی تعیناتی کے مسئلے کو عدلیہ سے لے کر پارلیمان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں اور ملک کی ایک بڑی اکثریت اس قانون سازی کے اس لیے خلاف ہے کہ اسکی منظوری کی صورت میں پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت بھی ججوں کے فیصلوں کو نہ صرف مسترد کر سکے گی بلکہ اپنی مرضی کے فیصلے بھی مسلط کرسکے گی۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے ایسے اہم فیصلے ہیں جو نتن یاہو کی حکومت عدلیہ کی بجائے خود کرنا چاہتی ہے۔ اب تک اسرائیلی اور مغربی میڈیا جس اہم فیصلے کا ڈھکے چھپے لفظوں میں ذکر کر رہے ہیں وہ ویسٹ بینک کی Settlements میں یہودی آبادیوں کا اضافہ ہے۔ یہ اضافہ پانچ دہائیوں سے ہو رہا ہے مگر کچھ عرصے سے بین ااقوامی دباؤ کے تحت اسرائیلی عدالتیں مزید نو آبادیوں کے خلاف کبھی کبھار فیصلے دے دیا کرتی ہیں۔ اس قسم کے فیصلوں کے بعد مغربی ممالک بڑے فخر سے اسرائیل میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اب کیونکہ اس مجوزہ قانون سازی کے بعد عدالتوں سے یہ اختیار پارلیمنٹ کو منتقل ہو جائیگا اس لیے انسانی حقوق کے دعویداروں کے پاس کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اسی لیے صدر بائیڈن‘ امریکی میڈیا کے مطابق‘ کئی مرتبہ وزیراعظم نتن یاہو سے اس بل کو پارلیمنٹ میں نہ بھیجنے کا کہہ چکے ہیں۔ جس کے بعد اسرائیل
میں فار رائٹ کی جماعتیں یہ احتجاج کر رہی ہیں کہ امریکہ انکے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔یہ خبر اکثر امریکی اخبارات میں مختلف حوالوں سے شائع ہوتی رہتی ہے کہ اسرائیل کا رائٹ ونگ میڈیا تسلسل سے یہ الزام لگا رہا ہے کہ امریکن اسرائیلی اربوں ڈالرز لگا کراسرائیل میں ہڑتالیں کروانے کے علاوہ مظاہرین کو سہولتیں بھی فراہم کر رہے ہیں۔
اسرائیل کا موجودہ آئینی‘ عدالتی اور سیاسی بحران اس لیے بھی گمبھیر ہے کہ اسکا آئین لکھا ہوا نہیں ہے۔ اب تک مختلف حکومتیں آئین سازی کی کوشش کر چکی ہیں مگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی اور دوسرا یہ کہ اسرائیلی جمہویت Unicameral یعنی یک ایوانی ہے۔ اسمیں سینٹ نہیں ہے جسکی وجہ سے قومی اسمبلی میں ایک ووٹ کی اکثریت سے پاس کیا ہوا بل بھی قانون بن جاتا ہے۔آج تک اس ایک پاور سینٹر کی بے قابو طاقت کو کنٹرول کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ اپنے اختیارات استعمال کرتی رہی ہے۔ اب بنجامن نتن یاہو یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت اور پارلیمان میں بیلنس آف پاور نہیں ہے۔پارلیمان کے کسی بھی فیصلے کو عدالت عظمیٰ بہ یک جنبش قلم مسترد کر دیتی ہے یوں چند غیر منتخب جج 162 منتخب اراکین کے فیصلوں کو ویٹو کر دیتے ہیں۔ نتن یاہو نے اس صورتحال کو جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوے کہا This legislation would strengthen Israeli democracy by giving unelected judges less power over elected lawmakers. لیکن حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کے بعد پارلیمان بے لگام ہو کر اقلیتوں کے خلاف ہر قسم کی قانون سازی کر سکے گی۔اسوقت نتن یاہو پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کی بجائے اپوزیشن سے بات چیت کے ذریعے کوئی حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نتیجہ جو بھی ہو یہودی آباد کاروں کو ارض فلسطین پر آج تک نئی بستیاں آباد کرنے سے روکا جا سکا ہے اور نہ ہی انہیں آئندہ روکا جا سکے گا۔