کیا مہربان آمریت‘کمزورجمہوریت کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو گذشتہ ماہ صدر بائیڈن کے ڈیمو کریسی سمٹ میں پوچھا گیا۔ کینیا کے وفد میں شامل دانشوروں نے کہا کہ انکی جمہوریت نے وہ نتائج نہیں دئیے جسکی انہیں سخت ضرورت تھی۔ وہ سنگا پور کے معمار قوم Lee Kuan Yew کی تعریف کر رہے تھے جس نے ایک چھوٹی سی غربت زدہ شہری ریاست کو ایک عشرے میں دنیا کی خوشحال ترین ریاستوں کی صف میں شامل کر دیا۔انکی یہ بات اس لیے درست ہے کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 1960 میں امریکہ کے پڑوس میں واقع ایک جزیرہ نما ریاست جمیکا اور سنگا پور دونوں کا Gross Domestic Product 425 ڈالرز تھا مگر 2021 میں سنگا پور کا GDP 72,794 ڈالرز تھا جبکہ جمیکا کا 5181 ڈالرز تھا۔سنگا پور کی اس بے مثال ترقی کی وجہ سے صرف کینیا ہی میں نہیں بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی Lee Kuan Yew کو ایک ہیرو ما نا جاتا ہے آجکل تو سری لنکا‘ لبنان اور جنوبی افریقہ کے علاوہ کئی دوسرے ممالک میں بھی لوگ غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے کسی Lee Kuan Yew کی تلاش میں ہیں۔صدر بائیڈن نے جمہوریت کے سمٹ‘ جس میں دنیا بھر سے ریاستی سربراہوں اور دانشوروں نے شرکت کی‘ میں کہا کہ آج کی دنیا میں جمہوری اور آمرانہ نظام حکومت میں ایک ایسے مقابلے کی بات ہو رہی ہے جس میں جمہوری ممالک فتحیاب ہو چکے ہیں۔ صدر بائیڈن نے جمہوری نظام پر ہونے والی اس تنقید کا جواب نہیں دیاکہ بعض ڈکٹیٹروں کو اس لیے پسند کیا جاتا ہے کہ انکے دور حکومت میں اچھے نتائج سامنے آ ئے تھے۔ اس سمٹ پر امریکی میڈیا پر ہونے والی گفتگو میں کہا گیا کہ ترقی یافتہ جمہوریتیں ہر اعتبار سے مطلق العنان ریاستوں سے آگے ہیں۔ اس موقع پر افریقی ممالک کے نمائندوں نے کہا کہ وہ مغربی جمہوریتوں کی ترقی کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان چھوٹے جمہوری ممالک کے مسائل بیان کر رہے ہیں جوکئی برسوں سے جمہوری ہونے کے باوجود اقتصادی طور پر آگے نہیں بڑھ سکے بلکہ الٹا انکے قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہو ا ہے۔
جمہوریت اور آمریت کے موضوع پر ہونے والے ایک مباحثے میں کولمبیا یونیورسٹی میں کاروباری قوانین پڑھانے نے والے پروفیسرRonald Gilson نے کہا کہ ماضی قریب میں چند ایسے ڈکٹیٹرز بھی گذرے ہیں جنہوں نے کرپشن کرنے کے بجائے اپنے ملک کی معاشی ترقی پر توجہ دی اور بہت جلد نئی جمہوریتوں سے بہتر نتائج دئیے۔ پرو فیسر رونلڈ گلسن جنہوں نے Economically Benevolent Dictators کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے نے کہا کہ Chile نے Augusto Pinochet‘ جنوبی کوریا نے Park Chung Hee اور چین نے Deng Xiaoping جیسے ڈکٹیٹرزکے ادوار میں ایسی ترقی کی جسے آج بھی قابل رشک مانا جاتا ہے جبکہ ساٹھ برس پہلے کے اسی دورمیں نئی اور کمزور جمہوریتیں ترقی نہ کر سکیں۔ پروفیسر رونلڈ گلسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہر ملک کی اشرافیہ ایسی بڑی معاشی تبدیلیوں کی مزاحمت کرتی ہے جو انکے مفادات پر اثر انداز ہوتی ہوں۔اسکے برعکس ڈکٹیٹر زایسے عناصر سے اپنی بات منوانے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ اس کتاب کے مطابق مہربان ڈکٹیٹرز ملک کے اندر اور باہر تمام سرمایہ داروں کو یقین دلاتے ہیں کہ انکا سرمایہ ہر لحاظ سے محفوظ ہو گا اور انہیں اگر کاروباری جھگڑوں کے تصفیے کیلئے عدالتوں میں جانا پڑا تو وہاں انہیں جلد انصاف مہیا کیا جا ئیگا۔پروفیسر گلسن کے مطابق جب سرمایہ دار‘ لوگوں کے حالات بدلتے ہوے دیکھتے ہیں اور انہیں معیشت ترقی کرتی ہوئی نظر آتی ہے تو وہ سرمایہ کاری میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اسکے برعکس ترقی پذیر جمہوری ممالک کے حکمران اپنے معاشی منصوبوں پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کر پاتے کہ انکی حکومت کی میعاد ختم ہو جاتی ہے اور نئی حکومت نئے منصوبے لے کر آ جاتی ہے۔
پروفیسر گلسن نے یہ بھی لکھا ہے کہ مہربان ڈکٹیٹرز آسانی سے نہیں ملتے اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ ہمیشہ مہربان ہی رہیں گے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہر ڈکٹیٹر اتنا طاقتور ہو جاتا ہے کہ اسکی رائے سے اختلاف اور اسکی حکم عدولی نا ممکن ہو جاتی ہے۔ساٹھ لاکھ لوگوں کا ملک سنگا پور Lee Kuan Yew کی وفات کے آٹھ برس بعد ویسا نہیں رہا جیسا کہ اسکی زندگی میں تھا۔ آج لی کوان یو کا چھوٹا بیٹا اور ایک پوتا گرفتاری کے خوف سے اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ لی کوان کے پوتے Shengwu Li نے ایک صحافی کو بتایا ہے کہ ڈکٹیٹرز ذرہ بھر مخالفت برداشت نہیں کرتے۔ وہ میڈیا‘ عدلیہ‘ سول سروس‘ فوج اور تمام ریاستی اداروں کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔لی کوان کے چھوٹے بیٹےLee Hsien Yang نے کہا ہے کہ وہ اگر اپنے بھائی کی حکومت میں گرفتاری کے خوف سے اپنے ملک میں نہیں رہ سکتا تو وہاں عام آدمی کی کیا حالت ہوگی۔ Lee Hsien Yang نے کہا ہے کہ سنگا پور جیسی مہربان آمریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لی کوان یو جیسے کرشماتی لیڈر کی وفات کے بعد اب وہاں درمیانے درجے کی ایسی قیادت آ گئی ہے جو دولت اور طاقت کے ارتکاز پر یقین رکھتی ہے اسی لیے اب وہاں کسی نئی قیادت کے ابھرنے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ اسکی رائے میں ایسی مہربان آمریتیں یا تو چلی اور جنوبی کوریا کی طرح فعال جمہوریتوں میں ڈھل جاتی ہیں اور یا پھر وہ ایسی آمریت بن جاتی ہیں جو مہربان نہیں ہوتی۔