نو جسٹس صاحبان پر مشتمل امریکی عدالت عظمیٰ صرف ایک جسٹس کے غیر ذمہ دارانہ روئیے کی وجہ سے میڈیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نشانے کی زد پر ہے۔ ریپبلکن پارٹی دبے لفظوں میں عدالت کا ساتھ دے رہی ہے مگر کھل کر اس لئے سامنے نہیں آ رہی کہ زیر بحث جسٹس Clarence Thomas کٹر قدامت پسند ہیں ۔ وہ ہمیشہ فار رائٹ نظریات کے حامل مقدمات کے حق میں فیصلے دینے کی وجہ سے لبرل میڈیا کی سخت تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اب انکا ایک ایسا سکینڈل سامنے آیا ہے جسکا دفاع چیف جسٹس John Roberts بھی نہیں کر رہے اور جودلائل معتوب جسٹس نے اپنے حق میں ایک بیان کی صورت میں دئیے ہیں انہیں بھی نقادوں نے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ انکے حامیوں نے انکے حق میں جو مہم چلائی ہے اسکے بارے میں دی نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے The defenses being made on Justice Thomas's behalf hardly pass the laugh test یعنی جسٹس تھامس کے دفاع میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ مذاق کے معیار پر بھی پورا نہیں اُترتا۔ تحقیقاتی جرنلزم کے ادارے Propublica نے مارچ میں انکشاف کیا تھاکہ جسٹس کلیرنس تھامس بیس برسوں سے ایک ریپبلیکن ارب پتی بزنس مین سے تحفے تحائف لینے کے علاوہ انکی شکار گاہوں میں شکار کرتے رہے ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ اور انکی بیوی Virginia Thomas جنہیں میڈیا Ginni کہتا ہے عرصہ دراز سے پراپرٹی ٹا ئیکون Harlan Crow کی قیمتی دخانی کشتیوں میں سیر و تفریح بھی کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں دونوں میاں بیوی انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں نو دن گزار کر آئے ہیں ۔ اس دوران انہیں Harlan Crow کا سٹاف سمیت Super yacht بھی میسر تھا اور ہوائی سفر کے لئے پرائیویٹ جیٹ بھی انکی جنبش آبرو کا منتظر تھا ۔ Propublica نے لکھا ہے کہ اگر جسٹس
تھامس اس سیرو تفریح کے اخراجات خود برداشت کرتے تو انہیں پانچ لاکھ ڈالرز سے زیادہ خرچ کرنے پڑتے۔Harlan Crow ٹیکساس میں ریئل سٹیٹ کا کاروبار کرتا ہے اور عرصہ دراز سے ریپبلیکن پارٹی کے امیدواروںکو جتوانے کے لیے دل کھول کر فنڈز دے رہا ہے۔ امریکہ میں تمام جج اور جسٹس صاحبان اس قانونی ضابطے کے پابند ہیں کہ وہ تحفے تحائف کی مالیت اور دوستوں کے خرچ پر سیرو تفریح کے تمام اعداد و شمار اپنے ٹیکس ریٹرن میں ظاہرکریں۔ اس معاملے پر ریسرچ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ چھوٹی عدالتوں کے جج صاحبان تو ان قوانین کی پابندی کرتے ہیں مگر سپریم کورٹ کے جسٹس خود کو ان ضابطوں کا پابند نہیں سمجھتے۔ آنجہانی جسٹس Antonin Scalia نے سپریم کورٹ میں ہوتے ہوئے 258ایسے ملکی اور غیر ملکی دورے کئے جن کے زیادہ تر اخراجات انکے مالدار دوستوں نے ادا کیے۔ موصوف شکار کے شوقین تھے ۔ وہ 2016 میں اپنے ارب پتی دوست John Poindexter کی عالیشان شکار گاہ میںقیام کے دوران دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان دنوںPoindexter کی کمپنی کے کئی مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔ اسوقت Justice Scaliaکے چل بسنے وجہ سے میڈیا نے اس قضیے کو نظر انداز کر دیا تھا مگر اب صورتحال اس لیے مختلف ہے کہ Ginni Thomasڈونلڈ ٹرمپ کی پرستار ہیں۔ وہ
ملک بھر میں ایک فار رائٹ Political Activist کے طور سے جانی جاتی ہیں۔ متنازعہ سیاسی معاملات پر اکثر انکی میڈیا سے نوک جھونک ہوتی رہتی ہے۔سینٹ جوڈیشری کمیٹی‘ جو تمام جج اور جسٹس صاحبان کے لیے ضابطہ اخلاق بنانے کا آئینی اختیار رکھتی ہے ‘ کے چیئر مین Senator Richard Durbin جنکا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے نے چیف جسٹس کو ایک خط بھیجا ہے جس میں جسٹس تھامس کے سفری اخراجات اور ٹیکس ریٹرن کے تمام معاملات کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اس سکینڈل کے بارے میں ایک ریٹائرڈ جج William Brown نے ایک مضمون میں لکھاہے کہ عدالت عظمیٰ کی نیک نامی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور عام شہری جسٹس صاحبان کے اعتبار اور اخلاقی بلندی کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔ ولیم براﺅن نے لکھا ہے۔
The Supreme Court has no power. It has no way of enforcing its decisions.
The authority of the Supreme Court rests on the willingness of other branches of government to accept and abide by its decisions. ترجمہ©: سپریم کورٹ کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے ۔ یہ کسی بھی طریقے سے اپنے احکامات پر عملدرآمد نہیں کرا سکتا۔ اسکے اختیا ر کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ حکومت کے دوسرے ادارے کس حد تک اسکے احکامات کو تسلیم کرتے ہیں۔ ولیم براﺅن نے دی نیو یارک ٹائمز کی اکیس اپریل کی اشاعت میں لکھاہے ©©© © ” سپریم کورٹ کے پاس جو اختیا ر بھی ہے اسکابرائے راست تعلق اسکے اعتبار‘ ساکھ اور غیر جانبداریت سے ہے۔ ہمارے جسٹس صاحبان اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ انکے سکینڈل اور جانبدارانہ فیصلے ان کے باقیماندہ اختیارات کو بھی ختم کر دیں گے۔“