پندرہ اپریل سے خرطوم میں فوج کے دو متحارب گروہ ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار ہیں۔ دارالخلافے کی سڑکوں پر ٹینک کھڑے ہیں اور اینٹی ایئر کرافٹ توپیں جا بجا لگی ہوئی ہیں۔ آسمان پر کبھی کبھار جنگی جہاز نمو دار ہوتے ہیں اور دشمن کے ٹھکانوں پر حملے کر کے چلے جاتے ہیں۔ خرطوم کا آسمان آرمی چیف جنرل عبدل فتح البرہان کے قبضے میں ہے اور زمین پر‘ پیرا ملٹری فورس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد ہمدا ن تسلط جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس خانہ جنگی میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ہر روزہزاروں کی تعداد میں لوگ مصر‘ سعودی عرب‘ چاڈ اور ایتھوپیا جا رہے ہیں۔ سوڈان کے سرحدی علاقے ڈارفور میں گزشتہ دو عشروں سے افریقی اور عرب قبائل میں جنگ ہو رہی ہے۔ ڈارفور میں پیرا ملٹری فورس جسے ریپڈ سپورٹ فورس کہا جاتا ہے۔ عرب قبائل کے ساتھ مل کرافریقی جنگجوؤ ں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ متحارب قبائل یوں تو کئی عشروں سے ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں مگر اس تصادم میں اسوقت شدت آئی جب 2000 میں سابقہ ڈکٹیٹر عمر حسن البشیر نے ایک بڑے عرب قبیلے جسے Janjaweed کہا جاتا ہے کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا۔ اسکے بعد فوج کو باقاعدہ طور پرافریقی اور غیر عرب قبلیوں کوکچلنے کا مشن سونپا گیا۔اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ڈارفور میں ہونے والی جنگ میں اب تک تین لاکھ لوگ ہلاک اور ستائیس لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔
پیرا ملٹری فورس کے لیڈر محمد ہمدان کا تعلق ڈارفور سے ہے اور وہ اسوقت خرطوم پر قبضہ کر نے کے لئے سوڈانی فوج سے متصادم ہیں۔جنرل ہمدان اور جنرل فتح البرہان نے 2019 میں ملکر صدر عمر البشیر کی حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اسوقت سوڈان کے عوام سابقہ صدر کے تیس سالہ دور آمریت کے خلاف مظاہروں میں جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔خرطوم میں ساڑھے تین سال تک مل جل کر حکومت کرنے کے بعد اقتدار کی منتقلی کے سوال پر دونوں جرنیلوں کی دوستی دشمنی میں ڈھل گئی اور بلآخر دونوں اقتدار پر قبضے کی جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے۔
اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے آجکل افریقی‘ عرب اور مغربی ممالک کے سفارتکار اپنا اثر رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے کبھی کبھار جنگ بندی ہو جاتی ہے مگر پھر عدم اعتماد کیوجہ سے امن قائم نہیں رہ سکتا اور جنگ کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں۔ خرطوم میں ان دنوں لوٹ مار اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر ادویات اور میڈیکل سپلائیز کے نہ ہونے کی فریاد کر رہے ہیں۔ شہر کے کئی حصوں میں بجلی اور پانی نایاب ہے۔ یہ خانہ جنگی اگر چہ حال ہی میں شروع ہوئی ہے مگر سوڈان ایک ہیجان خیز ماحول ا ور اعصاب شکن سیاسی کشمکش کے شکنجے میں کم از کم دو دہائیوں سے جکڑاہوا ہے۔ساڑھے چار کروڑ آبادی کا ملک سوڈان افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے اور دریائے نیل اور بحیرہ احمر کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے تزویراتی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اسکے سونے‘ یورینیم اور دیگر معدنیاتی ذخائر او زرخیز زمینیں اسکے عرب ہمسایوں کے لیے خاصی پر کشش ہیں۔ جنرل ہمدان کئی سالوں سے کثیر رقم کے عوض یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی مدد کے لیے اپنے جانجا وید قبیلے کے جنگجوبھیجتے رہے ہیں۔مصر کئی برسوں سے آرمی چیف جنرل فتح البرہان کی مدد کے لیے اسلحہ اور جنگی جہاز بھیج رہا ہے۔اسرائیل نے بھی اس لٹے پٹے ملک کی بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہوے تھوڑی بہت امداد دے کر اسے اپنی ریاست کو تسلیم کرنے پر آمادہ کر لیاتھا۔سوڈان کی اس تباہی میں اپنا حصہ ڈالتے ہوے مغربی ممالک بظاہر تو خرطوم میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر انکی نگاہیں سوڈان کے ساحلوں پر لگی ہوئی ہیں جنہیں چین اور روس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔سوڈان کے صحافی مگدی الگذولی نے کہا ہے Everyone wanted a chunk of Sudan and it could not take all the meddling یعنی ہر کوئی سوڈان کا ایک حصہ چاہتا ہے مگر یہ ملک اتنی زیادہ رسہ کشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔سوڈان کے صحافی نے لکھا ہے کہ جب بہت سارے متحارب مفادات اور دعویدار جمع ہو جاتے ہیں تو پھر ایک غریب ملک اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔
سوڈان ور دوسرے افریقی ممالک میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی دوڑ میں اسوقت متحدہ عرب امارات سر فہرست ہے۔خلیجی ریاستیں کئی برسوں سے سوڈان کی زرخیز زمینوں کی فصلیں اونے پونے داموں خرید کراپنی خوراک کی کمی کے مسائل حل کر رہی ہیں۔ سوڈان نے 2020میں 225 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے اپنی ایک لاکھ ایکڑ زرعی زمین ایک زراعتی پراجیکٹ کے لیے متحدہ عرب امارات کے حوالے کر دی تھی۔ موجودہ خانہ جنگی کی ایک فوری وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ مصر کے صدر عبدل فتح السیسی نے کہا تھا کہ وہ کسی بھی صورت سوڈان میں پیرا ملٹری فورس کے لیڈر جنرل ہمدان کی حکومت قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے جواب میں جنرل ہمدان نے بارہ اپریل کو اپنے ملک کی ایک ایسی ملٹری Base کا محاصرہ کر لیا جس میں مصر کے سینکڑوں فوجی اور بارہ جنگی طیارے موجود تھے۔اسکے بعد آرمی چیف جنرل فتح البرہان نے پندرہ اپریل کو اس محاصرے کو توڑنے کے لیے مسلح افواج کے جتھے بھجوا ئے۔ اس موقع پر مغربی سفارتکاروں نے مذاکرات کر کے مصر کے فوجی رہا کروا لیے۔ مغربی ذرائع کے مطابق اس جنگ کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سوڈان کے جرنیلوں نے عرب ممالک میں جو بھاری بھرکم سرمایہ کاری کر رکھی ہے اسے ضبط کرنے کی دھمکی دے دی جائے۔