پاپو لزم اور قانون کی بالا دستی

وہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کو ہر روز کوئی نہ کوئی پیغام دیتا ہے۔ وہ مسلسل لوگوں کی توجہ کا مرکز رہنا چاہتا ہے۔اسکی باتوں اور حرکات و سکنات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے۔ ریاستی ادارے زیادہ تر اسکے نشانے کی زد پر رہتے ہیں۔وہ ایک سیاسی لیڈر ہونے کے علاوہ ایک سٹار بھی ہے۔ اسکے ملک میں اس سے محبت اور نفرت کرنے والے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔اسکے مخا لفین اسکی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کون ہے؟ وہ سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہو سکتا ہے۔ اسے برازیل کا سابقہ صدر Jair Bolsonaroبھی سمجھا جا سکتا ہے اور وہ عصر حاضر میں پاپولسٹ تحریک کا پہلا شہرت یافتہ لیڈر‘ ہنگری کا صدر Victor Orban بھی ہو سکتا ہے۔کچھ اسی قسم کے لیڈر ترکی‘ اٹلی‘ فرانس اور کئی دیگر ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اسوقت بر سر اقتدار ہیں اور کچھ اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے اپنے ملک کی حکومت کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ ایسے ترقی پذیر ممالک جو کچھ عرصہ قبل بیرونی طاقتوں کے زیر تسلط رہے ہیں انکے عوام کا مقتدرہ کے خلاف ہونا تو سمجھ میں آتا ہے مگر امریکہ اور یورپ میں لوگوں کی قابل ذکر تعداد اپنی حکومت کی شدید مخالفت کیوں کرتی ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں نے تو اپنے عوام کی اکثریت کو خوشحالی‘ استحکام اور بہتر مستقبل دیا ہے۔ اس مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی حکومتوں کی سخاوتوں اور مہربانیوں کو اس لیے در خور اعتنا نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو اپنا منتخب کردہ اور جوابدہ سمجھتے ہیں اور ان سے مسلسل گڈ گورننس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ان تمام مغربی ممالک میں حکومت مخالف عناصر کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ انکی حکومتیں تارکین وطن کی یلغار کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان لوگوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ باہر سے آنے والے انکا ملک ان سے چھین لیں گے‘ انہیں اپنا کلچر‘ تشخص اور مستقبل غیر محفوظ نظر آ رہا ہے۔ ان خوشحال ممالک میں پاپولسٹ لیڈروں کی مقبولیت کی 
اصل وجہ وہ قوم پرستی ہے جسے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد میں آمد نے انگیخت دی ہے۔اسکے برعکس ترقی پذیر ممالک میں پاپولزم کی مقبولیت کی وجہ غربت‘ بیروز گاری اور مہنگائی ہے۔اس اعتبار سے امریکہ‘ فرانس اور اٹلی کا پاپولزم‘ برازیل‘ ہنگری اور پاکستان کے پاپولزم سے نہایت مختلف ہے مگر اس کے باوجود ان سب میں ایک دوسری قدر مشترک ایک ایسے لیڈر کی موجودگی ہے جس سے عوام کا ایک مخصوص طبقہ والہانہ جذباتی لگاؤ رکھتا ہے۔ یہ لگاؤ کبھی کبھار ایک مشتعل ہجوم کی صورت میں سرکاری عمارات پر حملے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ امریکہ میں چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر ڈونلڈ ٹرمپ کے پرستاروں کا حملہ آج تک نیوز میڈیا میں زیر بحث ہے۔ فرانس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آئے روز صدر امینؤل میکرون کی حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ انکی قیادت کا فریضہ فرانس کی پاپولسٹ لیڈر Marine Le Pen سر انجام دیتی ہیں۔ ان ممالک میں سرکاری اور نجی املاک پر حملہ کرنے والے حکومت اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ قانون کو تہہ تیغ کرنے سے انکے حقوق ایک طشتری میں رکھ کر انہیں پیش نہیں کئے جائیں گے۔ الٹا انہیں عدالتوں میں اپنے اس طرز عمل کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ واشنگٹن میں دو برس قبل جب کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملہ کیا گیا تو اسوقت بلوائی جوش و جذبے سے سرشار تھے‘ وہ غصے اور انتقام سے بپھرے ہوئے تھے۔ انکے مسیحا نے صدارتی 
الیکشن ہارنے کے بعد اسکے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔یہ ان کے لئے جینے یا مرنے کا لمحہ تھا۔ سرکشی اور بغاوت کے ان لمحات کے گذر جانے کے بعد جو کچھ ہوا وہ بلکل مختلف تھا۔ جب ان بلوائیوں کو وکیلوں کی فیسیں ادا کرنا پڑیں اور عدالت میں ہتھکڑیاں پہن کر پیش ہوناپڑا تو انکے ہوش ٹھکانے آگئے۔ اسوقت وہ خفت اور ندامت کا مرقع بن کر قانون کو اپنے بیگناہ ہونے کا یقین دلا رہے تھے۔ ایک طرف نیوز میڈیا نے ان ملزموں کے خلاف عدالتی کاروائی کو بھرپور کوریج دی تو دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی نے ہاؤس میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر دو سال تک ان مزاحمت کاروں کو میڈیا کی سپاٹ لائٹ میں رکھا۔ اسکے نتیجے میں ایک منقسم معاشرے میں نفاق اور نفرت کی خلیج مزید گہری ہو گئی مگر قانون‘ سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے والوں کو نظر انداز کر سکتا تھا اور نہ ہی ڈیموکریٹک پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ سیاست کے جواب میں خاموش رہ سکتی تھی۔ مگر دو سال کی اس طویل ٹرمپ مخالف مہم کے بعد کیا سابقہ صدر کے پرستار ان سے بد ظن ہوگئے۔ مختلف opinion polls یہی بتا رہے ہیں کہ اس تحقیقات اور دو بڑے مقدمات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف عدالتی فیصلوں کے با وجود انکی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مگرپاپولزم اور قانون کی اس رسہ کشی کے اس نتیجے سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ کیپیٹل ہل کے بیسیوں حملہ آوروں کے جیل جانے کے بعد اب اس قسم کی کسی دوسری پر تشدد مزاحمت کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری عمارتوں پر حملے کا حکم دیں گے اور نہ ہی انکے فدائین آستینیں چڑھا کر پولیس پر حملہ آور ہوں گے۔ اگلے سال کا صدارتی الیکشن جوزف بائیڈن جیتے یا ڈونلڈ ٹرمپ‘ امریکہ میں کسی سرکاری عمارت کو تباہ کرنے کیلئے مشتعل ہجوم اب میدان میں نہیں اترے گا‘ قانون نے اپنی بالادستی قائم کرکے دنیا کے سب سے بڑے پاپولسٹ لیڈر کو اسکی حدود میں رہنے کا حکم دے دیا ہے‘ اور کچھ نہ سہی عدالت کا یہ حکم ڈونلڈ ٹرمپ کی سمجھ میں آ گیا ہے۔