عافیہ صدیقی‘ بیس برس بعد

عافیہ صدیقی کی رہائی کےلئے امریکہ اور پاکستان دونوں ممالک میں تحریکیں چل رہی ہیں‘ انکے زور و شور میں کبھی اضافہ ہو جاتا ہے اور کبھی یہ خاموش ہو جاتی ہیں۔ آجکل جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی امریکہ آمد کے موقع پر پاکستانی امریکن کمیونٹی تمام بڑے شہروں میںڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلئے تقریبات منعقد کر رہی ہے۔ٹیکساس کے شہر Dallas سے 32 میل دور فورٹ ورتھ کی Maximum security prison میں قید تنہائی کی اذیتیں برداشت کرنے والی 51 سالہ دھان پان سی خاتون سے گذشتہ تیرہ برسوں میں اسکے برطانوی وکیل Clive Stafford Smith نے صرف ایک مرتبہ ملاقات کی ہے۔ خطرناک ترین قیدیوں کے لئے بنائی گئی اس جیل کے مینول کے مطابق ہر قیدی کو ماہانہ 360 ڈالر بھیجے جا سکتے ہیں اور ہفتے میں دو بار اس سے ملاقات بھی کی جا سکتی ہے۔ جیل میں واقع کینٹین سے قیدی ادویات کے علاوہ سٹیشنری اور ضروریات کی دوسری اشیا بھی خرید سکتے ہیں مگر تیرہ برسوں میں نہ تو کوئی امریکن پاکستانی اس سے ملنے گیا اور نہ ہی اسکی والدہ اور بہن کو اسلام آباد کی امریکن ایمبیسی نے درجنوں درخواستوں کے باوجود ویزے دئیے‘چند ماہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارتی عملے نے دوڑ دھوپ کر کے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو امریکی ویزے کی سہولت مہیا کر دی‘ سینیٹر مشتاق احمد‘ سٹیفورڈ سمتھ اور فوزیہ صدیقی نے 31 مئی کو فورٹ ورتھ کی جیل میں ڈھائی گھنٹے تک عافیہ صدیقی سے ملاقات کی‘ یکم جون کو ڈلاس کے اسلامک سینٹرکے وسیع و عریض احاطے میںسینکڑوں افراد کو اس ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ بیس برس بعد جب انہوں نے اپنی بہن کو ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پاﺅں میں بیڑی پہنے آتے ہوئے دیکھا تو وہ اسے پہچان نہ سکیںاسوقت انہوں نے سوچا کہ ” وہ عافیہ تو نہ تھی‘ مگر وہ کوئی اور بھی تو نہ ہو سکتی تھی۔ مجھے ماننا پڑا کہ وہ میری بہن عافیہ ہی تھی۔“ اسکے سامنے کے سب دانت ٹوٹے ہوئے تھے اور چہرے پرزخم کے نشان تھے‘دونوں بہنیں ایک ہی کمرے میں تھیں مگروہ ایکدوسرے کو چھو نہ سکتی تھیں۔ 
درمیان میں شیشے کی دیوار تھی ۔ ڈاکٹر فوزیہ نے درخواست کی کہ انہیں اپنی بہن کو چھونے کی اجازت دی جائے مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی۔ انہوں نے عافیہ کو بتایاکہ مریم اور احمد جوان ہو گئے ہیں۔ مریم ڈاکٹر بن چکی ہے اور احمد ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔عافیہ بار بار اپنی بہن سے سلیمان کے بارے میں پوچھتی رہی کہ وہ بچہ کہاں ہے جو اسکی گود میں تھا جب اسے کراچی میں گرفتار کیا گیا۔ وہ اپنی ماں کے بارے میں بھی فکر مند تھی۔ڈاکٹر فوزیہ کے پاس ان دونوں سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ سچ بول سکتی تھی نہ جھوٹ‘ والدہ رحلت فرما چکی تھیںاور سلیمان ابھی تک لاپتہ تھا۔ آنسوﺅں میں رندھی ہوئی آواز میں ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ کسی ماں کو محل دے دیا جائے اور اسکا بچہ اس سے چھین لیا جائے تو وہ یہی کہے گی کہ اسے جنگل میں بھیج دیا جائے مگر اسکا بچہ اسے دے دیا جائے۔ڈاکٹر فوزیہ جو Harvard trained neurologist ہیں اور کراچی کی آغا خان میڈیکل کالج میں پڑھاتی ہیں نے کہا کہ ” اگر یہ بچے میرے ہوتے تو میں کہتی کہ یہ سب گناہ میں نے کیے ہیںمجھے پکڑ لو اور میرے بچوں کو جانے دو۔“ حاضرین میں پاکستانیوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد عربی اور سیاہ فام مسلمانوں کی بھی تھی۔ ڈاکٹر فوزیہ چالیس منٹ تک مسلسل رواں اور شستہ انگریزی میں گفتگو کرتی رہیں۔ وہ خود بھی روتی رہیں اور سننے والوں کو بھی رلاتی رہیں‘ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر آپکو عافیہ صدیقی کے بارے میں ایک ملین سے زیادہ صفحات مل جائیں گے۔ انہیں پڑھ کر پتہ نہیں چلتا کہ اصلی عافیہ صدیقی کون ہے‘وکی پیڈیا کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ Wicked pedia ہے۔انٹرنیٹ پر عافیہ کی کردار کشی کرنےوالوں کو اگر درست تسلیم کر 
بھی لیا جائے تو یہ سوال اپنی جگہ موجود رہتا ہے کہ امریکہ میں Attempted Murder کے کس ملزم کو 86 سال قید کی سزا دی گئی ہے‘ عافیہ کے ہمدرد و غمگسار لاکھوں سہی مگر وہ کمزور ہیں‘ اسکے مخالفین تعداد میںبہت کم ہیں مگر ان میں سے کچھ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ایک بے سہارا ‘ بے بس اور نحیف و نزار خاتون کی آزادی کے راستے کی دیوار بنے ہوئے ہیں‘ ان میں سے بعض اپنی کمزور دشمن کے بارے میں یہ مضحکہ خیز دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہ امریکن شہری ہے اور اس اعتبار سے اسکا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ حکومت پاکستان اسکی رہائی کا مطالبہ کرنےکاحق نہیں رکھتی۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ہر امریکی صحافی اپنی خبر میںیہ لکھتا ہے کہ Aafia is a Pakistani national in U.S. custody پاکستان کا شہری ہونا ہی عافیہ کی رہائی کی کنجی ہے‘ جس طرح برطانیہ نے 2010میں معظم بیگ اور پندرہ دیگر برطانوی شہریت رکھنے والے قیدیوں کو گوانتانا مو بے سے رہا کروا لیا تھا اسی طرح پاکستان بھی مﺅثر سفارتکاری کے ذریعے عافیہ کو ا س جہنم سے نجات دلا سکتا ہے‘ اس بد نصیب پابند سلاسل کی رہائی کا ایک موقع اسوقت آیا تھا جب فروری2011 میں دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے سلسلے میں اسلام آباد اور واشنگٹن میں مذاکرات ہو رہے تھے‘ اسکے بعدمئی 2014 میں جب امریکی فوجی Bowe Bergdahl کو طالبان نے گوانتانامو بے سے اپنے پانچ قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا تو اس سے چند ماہ پہلے معظم بیگ کے بیان کے مطابق امریکہ صرف عافیہ صدیقی کے بدلے اپنے فوجی کی رہائی کا معاہدہ چاہتا تھا اور طالبان بھی اس پر راضی تھے مگر عافیہ کے طاقتور دشمن ایک مرتبہ پھر جیت گئے‘ بگرام کے عقوبت خانے میں چھ سال گذارنے والی قیدی نمبر 650اور اسکے بعد نیو یارک کی جیل میں دو سال رہنے والی عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ پر امید ہیں کہ اب دروازے کھلنا شروع ہو گئے ہیں ‘ ہماری دعا ہے کہ اس مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دشمن ناکام ہوں اور وہ بیس برس افغانستان اور امریکہ کی جیلوں کے جہنم میں گزارنے کے بعد اپنے بچوں اور بہن بھائیوں کی شفقت اور محبت کی آغوش میں لوٹ آئیں۔