ایشیا پر تسلط کی جنگ

چند روز پہلے سنگا پور میں ہونیوالی شنگریلا کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسمیں امریکہ‘ یورپ اور چین کے اعلیٰ سول اور ملٹری حکام نے شرکت کی۔ ہر سال ہونیوالی اس کانفرنس میں انڈو پیسیفک ممالک کے معاشی مسائل اور دیگر ممالک کیساتھ انکے تعلقات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بظاہر تو امریکہ اور چین یہی کہتے ہیں کہ وہ اس خطے کو کسی بڑے تصادم سے بچانا چاہتے ہیں مگر جنوبی چین کے سمندر میں دونوں طاقتوں کی بحریہ اورجنگی طیاروں کی مسلسل موجودگی انکے جارحانہ عزائم کی عکاسی کرتی ہے ۔اس تین روزہ کانفرنس میں مختلف ممالک کے مندوبین کے درمیان ہونیوالی تندو تیز گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ نہ صرف اس خطے کو اپنی مرضی کی سمت میں لیجانا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ امریکہ کئی عشروں تک ایشیا پیسیفک کے ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے بعد اب یہاں چین کے بڑھتے ہوے اثر رسوخ سے سخت نالاں ہے۔بیجنگ نے گذشتہ چند سالوں میں جس وسیع پیمانے پر ان ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے اس کی وجہ سے امریکی تسلط میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ اب واشنگٹن اپنے اتحادیوں کی مدد سے اس کھوئی ہوئی سلطنت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہفتے کے دن شنگریلا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے سیکریٹری آف ڈیفنس لائیڈ آسٹن نے کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ایشیائی ممالک کو بلا تاخیر امریکی نیٹ ورک کا حصہ بن جانا چاہئے ورنہ انہیں بہت جلد چین کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑیگا۔اسکا جواب دیتے ہوے چین کے وزیر دفاع لی شینگ فو‘ نے کہا کہ انکا ملک اپنی اقتصادی‘ سیاسی اور عسکری طاقت کو استعمال کرکے ایشیا پیسیفک کو ایک مضبوط اور مستحکم خطہ بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ پر تنقید کرتے ہوے لی شینگ فو نے کہا کہ واشنگٹن دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کر کے انہیںعدم استحکام سے دوچار کرنے کے بعد چلا جاتا ہے اور اس طرح سے پورا خطہ انتشار کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔جنرل لی نے کانفرنس سے انگریزی میں خطاب کرتے ہوے کہاWe do not want to let this be replicated in the Asia-Pacific جنرل لی نے یوکرین جنگ کے بارے میں کہا کہ نیٹو ممالک نے روس کے گرد گھیرا تنگ کرکے اسے یوکرین پر حملہ کرنے پر مجبور کر دیا اور اب یہی حربہ تائیوان کو بے پناہ اسلحہ دیکر چین کےخلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے وزیر دفاع Ben Wallace نے خبر دار کیا کہ روس اس اعتبار سے ایشیا کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے کہ اسکی مضبوط بحریہ ہر وقت جاپان کے ارد گرد موجود رہتی ہے۔ بن والس نے اس خدشے کا اظہار کیاکہ بحرالکاہل میں چین اور روس کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت یورپی ممالک کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔جنرل لی نے اس مﺅقف کو مسترد کرتے ہوے انتباہ کیا کہ امریکہ اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے NATO سے ملتا جلتا اتحاد بنانا چاہتا ہے۔اس مکالمے کے دو ٹوک ہونے کا اندازہ چین کے وزیر دفاع کے اس جواب سے لگایا جا سکتا ہے‘ The best thing Europe could do for Asia was to do nothing.. We dont need an Asian NATO. 
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جنوبی چین کے سمندر میںامریکہ اور چین کے درمیان کسی بھی وقت حادثاتی طور جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ انکی رائے میں اس جنگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ مذاکرات کے ذریعے ایسا طریقہ کار وضع کریں جو اس خطے میں جنگ کے امکانات کو کم کر سکے۔ جنرل لی نے اپنے امریکی ہم منصب کو آگاہ کیا کہ اس قسم کے مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ ہم جنوبی چین کے سمندر میں امریکی جہازوں کی موجودگی کو جائز سمجھتے ہیں۔جنرل لی نے کہا کہ امریکہ کا ایشیا پیسیفک سے چلے جانا ہی اس مسئلے کا دیر پا حل ہے۔
شنگریلا کانفرنس میں امریکہ اور چین کے مابین ہونیوالے تشویشناک مکالمے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ دونوں عالمی طاقتیں گذشتہ صدی کی سرد جنگ کی طرح اپنا اپنا کیمپ بنانے پر مصر نظر آتی ہیں۔اس صورت میں ایشا پیسیفک کے ممالک کے لیے غیر جانبدار رہنا مشکل ہو گیا ہے۔یوں نظر آ رہا ہے کہ دونوں عالمی طاقتوں کی اس جارحانہ سفارتکاری کے جواب میں اگر انڈونیشیا‘ فلپائن‘ برونائی‘ میانمار‘ بنگلہ دیش‘ تھائی لینڈ‘ ویت نام: کمبوڈیااور دیگر چھوٹے ممالک تماشائی بنے رہتے ہیںتو یہ بے عملی انکے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔جسکا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کو بلا تاخیر کسی ایک کیمپ کا انتخاب کرنا پڑیگا۔ فلپائن نے چند ماہ پہلے امریکہ کیساتھ ایک نئے فوجی معاہدے پر دستخط کر کے اسے دو جدید ملٹری Bases بنانے کی اجازت دی ہے۔ فلپائن میں امریکی مداخلت کی تاریخ کیونکہ بہت پرانی ہے اس لیے بعض مبصرین نے دو پرانے اتحادیوں کے درمیان اس نئے معاہدے کو Return of the empire یعنی سلطنت کی واپسی کا عنوان دیا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ سلطنت صرف فلپائن ہی میں نہیں بلکہ پورے ایشیا میں بڑے طمطراق سے واپس آگئی ہے۔ لیکن اس مرتبہ چین اسکے سامنے ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے روپ میں کھڑا ہے۔ اس اعتبار سے یہ صورتحال نہ صرف پہلے سے مختلف ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایشا پر تسلط کی اس جنگ میں روس اور چین‘ نیٹو اتحادیوں سے پنجہ آزمائی کرتے ہیں یا Status quo کو برقرار رکھنے پر قناعت کرتے ہیں۔