عسکری اور سفارتی ہر دو محاذوں پر چھوٹے بڑے ملکوں کو کبھی کبھار سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کیونکہ ہر وقت کئی محاذوں پر الجھا رہتا ہے اسلئے اسکی پسپائیاں اکثر زیر بحث رہتی ہیں ‘ان دونوں میدانوں میںکئی مرتبہ پسپا ہونے کے باوجود امریکہ بدستور ایک بڑی عالمی طاقت کے منصب جلیلہ پر فائز ہے۔ ہر بڑی شکست کے بعد واشنگٹن یوں خم ٹھونک کر میدان میں آکھڑا ہوتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ عراق اور افغانستان میں ناکامی کے بعد اس نے یوکرین کا رخ کیا اور اب لگتا ہے کہ وہ اس معرکے میں کامیاب رہیگا۔ اور اگر نہ بھی ہوا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑیگا ۔ اسکی ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رہیگا۔ اس تکبر‘ بے نیازی اور احساس برتری کے باوجود گذشتہ چند ماہ میںایسا کچھ ضرور ہوا ہے جس نے اسکے احساس تفاخر اور عظیم تر ہونے کے جذبے کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔ آجکل وہ ایک بپھرے ہوے شیر کی طرح سفارتی محاذ پر دشمنوں کی خبر لے رہا ہے۔ کبھی پلٹ کر اور کبھی جھپٹ کر حملے کر رہا ہے۔ انٹونی بلنکن کے بارے میں اطلاع آتی ہے کہ وہ سعودی عرب میں ایک لینڈ مارک ڈیل کے خدو خال سنوار رہے ہیں‘ دفاعی ماہرین کی نگاہیں ریاض پر لگی ہوتی ہیں کہ اچا نک پتہ چلتا ہے کہ سیکریٹری آف سٹیٹ بیجنگ میںصدر شی جن پنگ سے ملاقات کر رہے ہیں ۔ اس سے چند روز پہلے سنگا پور میں سیکرٹری آف ڈیفنس لائیڈ آسٹن اپنے چینی ہم منصب لی شنگ فوکیساتھ الجھے ہوئے تھے ‘ اسی شنگریلا کانفرنس میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جیک سلیون نے بھی خوب خطابت کے جوہر دکھائے۔ امریکہ اور چین کی اس بڑھتی ہوئی سفارتی محاذ آرائی کا مقصدانڈو پیسیفک کے ممالک کو اپنی طرف متوجہ کرنااور مد مقابل سے بدظن کرنا ہے۔ امریکہ کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا سوویت یونین کے ساتھ لڑی جانیوالی اڑتالیس سالہ طویل سرد جنگ میں بھی نہ تھا۔ ان دنوں دنیا واضح طور پر دو کیمپوں میں تقسیم تھی ۔ دونوں عالمی طاقتوں کے اپنے اپنے دوست اور دشمن تھے ۔ چھوٹے ممالک کو قائل کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ انکا فائدہ کس کی بندوق اٹھانے میں ہے۔ یہ سارے فیصلے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہو چکے تھے ۔ اب تو امریکہ اور چین دونوں عالمی برادری کے
سامنے اپنا اپنا مقدمہ پیش کر رہے ہیں ۔ شنگریلا کانفرنس میںامریکہ اور چین نے جس طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کی ‘ وہ ایک بدلے ہوے عالمی منظر نامے اور ایک نئے سفارتی لینڈ سکیپ کا پتہ دے رہی تھی۔ یہ نیرنگئی دوراں ابھی سماعتوں اور بصارتوں کو خیرہ کر رہی تھی کہ سیکرٹری آف سٹیٹ بیجنگ جا پہنچے ‘ وہاں انکا سرد مہری سے استقبال کیا گیا تو امریکی میڈیا نے کہا کہ وزرائے خارجہ کو کسی بھی ملک میں زیادہ پروٹوکول نہیں ملتا۔ پھر جب صدر شی جن پنگ نے انٹونی بلنکن سے ملاقات کر لی تو اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔ سیکرٹری بلنکن کے اس دورے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ یورپی ممالک نے
امریکہ سے کہہ دیا ہے کہ وہ روس کے بعد چین کیساتھ اپنے تعلقات کشیدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیںاس لیے اس محاذ کو ہر قیمت پر ٹھنڈا کرنا ہو گا ورنہ یورپی عوام ناقابل برداشت مہنگائی کے خلاف بہت جلد سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ شنید ہے کہ چین میں انٹونی بلنکن دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کم از کم وقتی طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔ ا س دورے کی بازگشت ابھی فضاﺅں میں باقی تھی کہ نریندر مودی واشنگٹن آپہنچے۔ وہاں ان کے لیے جو سرخ قالین بچھائے گئے انہوں نے امریکی ماہرین کوبھی اس حد تک ششدر کردیا کہ وہ کہہ اٹھے کہ اسکی کیا ضرورت تھی۔ یہ معاملہ تو اس سے بہت کم پر بھی طے ہو سکتا تھا مگر کیا کیا جائے صدر بائیڈن ہر صورت نریندر مودی کی امریکہ آمد کو ایک بے مثال سفارتی کامیابی کا چولا پہنانے کا عزم کئے ہوے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم کوسٹیٹ ڈنر دینے کے علاوہ کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا
اعزاز بھی بخشا گیا۔ عام طور پر یورپ کے چند بڑے ممالک اور اسرائیل اکثر اس آﺅ بھگت سے نوازے جاتے ہیں‘ ایشیا ‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے پسماندہ ممالک کبھی بھی اس اعزاز کے مستحق نہیں سمجھے گئے۔ بھارت کی اس حیران کن پذیرائی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ اب آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ‘ پانچویں بڑی معیشت ہے اور چین کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے اس لیے یہ خاطر تواضع ضروری ہے۔ امریکی میڈیا مودی کی آمد سے پہلے ہی انکے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی چادر بیچ چوراہے میں دھو رہا تھا‘ صدر بائیڈن سے ببانگ دہل مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اس انتخابی آمریت کے سربراہ سے اسکے آمرانہ ہتھکنڈوں پر کھل کر بات کی جائے مگر یہ سب مطالبے دھرے کے دھرے رہ گئے ‘ وائٹ ہاﺅس کے دفاعی امور کے ترجمان جان کربی نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ بھارتی وزیر اعظم سے انسانی حقوق پر بھی بات کر لی جائے گی‘ صدر بائیڈن کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ دنیا جمہوریت اور آمریت کے منطقوں میں منقسم ہے اور امریکہ ہر صورت جمہوری قوتوں کا ساتھ دے گا مگر نریندر مودی کی واشنگٹن آمد کے بعد صدر بائیڈن کے اس بیانیے کی قبائے تار تاربر سر میدان آویزاں ہے مگر انہیں اسکی پرواہ نہیں۔اب صدر امریکہ کے ناقدین جو بھی کہیں ‘ واشنگٹن جنوبی ایشیا اور انڈو پیسیفک میں بڑے طمطراق سے آ کھڑا ہوا ہے۔ امریکہ نے 26 ارب ڈالر کے جو خطیر اور بیش بہا دفاعی معاہدے بھارت کےساتھ کیے ہیں انکی بدولت واشنگٹن چین کی دہلیز تک پہنچ گیاہے۔ بھارت نے 75 برس کی پس و پیش کے بعد بلآخر امریکہ کی بندوق اٹھانے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مودی نے میلہ تو لوٹ لیا ہے اور بندوق بھی اٹھا لی ہے مگر یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ اسے چلائے گا بھی یا نہیں۔ مگر چین کے ہاتھوںمشرق وسطیٰ میں ایک بڑی سفارتی شکست کے بعد امریکہ کو ایک زبردست کامیابی کی ضرورت تھی جو اسے حاصل ہو گئی ہے‘ اب صدر بائیڈن اپنی انتخابی مہم کے جلسوں میں کہہ سکیں گے کہ انہوں نے دشمن کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ خارجہ پالیسی داخلہ معاملات کی توسیع ہوتی ہے۔