آئی ایم ایف اور جیو پالیٹیکس

آئی ایم ایف‘ امریکہ اور چین پسماندہ ممالک کو قرض دیکر ان پر احسان کر تے ہیں یا انکی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا تے ہیں ‘ اس مخمصے کو اگر سمجھا نہیں جا سکتا تو کم از کم یہ تو دیکھا جا سکتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے پر الزامات کیا لگا رہے ہیں۔ امریکہ اگر چہ کہ معاشی مشکلات کے ازالے کے لیے کسی ملک کو مالی امداد نہیں دیتا مگر وہ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہے اور یہ مالیاتی ادارہ اسکی مرضی کے بغیر کسی کو بھی قرض نہیں دیتا۔ امریکہ اور آئی ایم ایف کئی برسوں سے چین پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ بیجنگ کے مقروض ممالک عالمی مالیاتی ادارے سے رقم لیکر اسکے قرض کی قسطیں ادا کرتے ہیں۔ اب آئی ایم ایف یہ کہہ رہا ہے کہ جب تک چین اپنے نا دہندہ ممالک کے قرض معاف نہیں کرتایا انہیں ری سٹرکچر نہیں کرتا اسوقت تک ان ممالک کو نیا بیل آﺅٹ پیکج نہیں دیا جا ئیگا۔اس جیو پولیٹیکل فریم ورک میں آجکل آئی ایم ایف درخواست گذار ممالک سے ایسی شرائط منوا رہا ہے جن کاچند سال قبل تک تصور نہیں کیا جا سکتاتھا۔ مثلاً سٹاف لیول معاہدے سے پہلے مقروض ممالک کے دوستوں سے ضمانتیں حاصل کرنااور معاشی پالیسیوں میں دور رس تبدیلیاں کروا کے عوام پر کمر توڑ مہنگائی مسلط کر دینا۔ چین اسکے جواب میں یہ کہتا ہے کہ امریکہ I.M.F کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور ان ممالک پر سخت ترین شرائط عائد کی جاتی ہیں جنہیں چین نے قرض دیا ہوتاہے۔ان الزامات کی نوعیت ظاہر کرتی ہے کہ پسماندہ ممالک اسوقت دو عالمی طاقتوں کی جیو پالیٹیکس میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔اب تک تو فریقین زیر لب یہ کہہ رہے تھے کہ ضرورت مند اپنی پسند کا مہاجن چن لیں‘ مگر اب بعض ممالک سے کھلم کھلا یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک طرف ہو جائیں۔جو ایسانہیں کرتا اسے مشکل ترین شرائط پر اور طویل انتظار کے بعد قرض دیا جا تا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جنگ دہشت گردی کے دوران پاکستان کی درخواست آئی ایم ایف کے دفتر پہنچتے ہی منظور ہو جاتی تھی۔ان دنوں سوا ارب ڈالرز سالانہ امریکی امداد کا پیکج اسکے علاوہ تھا۔ اسوقت آسانی سے قرض کے حصول کی وجہ وزیر خزانہ کی ذہانت اور چابکدستی بتائی جا تی تھی اور آجکل اگر بمشکل تمام قرض دستیاب ہو جائے تو اسے بھی وزیر خزانہ کی بہترین کارکردگی کا ثمر قرار دیاجاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد تخلیق ہونیوالا یہ مالیاتی ادارہ امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کی نگہداشت کے لئے بنایا گیا ہے‘ یہ ہمیشہ دوستوں کے لئے کشادہ دل اور حریفوں کے لئے سفاک ثابت ہو اہے۔ پسماندہ ممالک کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے اور انہیں عالمی سیاست کی کشمکش میں گھسیٹنے کی مذموم کوششوں کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر فی لحال ہم صرف تین ضرورت مند ممالک کی مجبوریوں کا ذکر کریں گے۔ ان میں سر فہرست جنوبی امریکہ کا ایک چھوٹا مگر تزویراتی اعتبار سے اہم ملک سری نیم ہے ۔ اسکی معاشی تباہی کی وجوہات دوسرے تمام مقروض ممالک سے ملتی جلتی ہیں۔ ان سب کے گرانبار قرضوں کی تہہ میں چھپی ہوئی تلخ حقیقت بجلی کی پیداواری لاگت ہے۔ جب آ بادی کم تھی تو ان ممالک کے ڈیم انکی بجلی کی ضرورت کو پورا کر دیتے تھے مگر ان ممالک نے کیونکہ گذشتہ تین دہائیوں میں آبادی میں بے پنا ہ اضافے کے باوجود ڈیم نہیں بنائے اس لیے اب انہیںپرائیویٹ کمپنیوں سے منہ مانگے داموں بجلی خریدنا پڑتی ہے۔ ہر مقروض حکومت عوام کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے مہنگے داموں بجلی خرید کر سستی قیمت پر بیچتی ہے اس لیے اسکے قرضوںمیں ہر سال ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
سری نیم کے صدر چندریکا پرساد نے ایک صحافی کو بتایا کہ اسکے ملک میںہر طرف مہنگائی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آئی ایم ایف کی بات مانے یا چین کی۔اس نے کہا ‘ My country is caught in the geopolitical crossfire, our access to aid is delayed by the conflict between the United States and China. سری نیم کے 2.4 ارب ڈالر زکے قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف نے 690 ملین ڈالرز کا تین سالہ معاہدہ نہایت کڑی شرائط منوانے کے بعدبھی ابھی تک منظور نہیں کیا۔ اسکی وجہ یہ اضافی شرط ہے کہ جب تک چین اپنے دیئے ہوئے 545 ملین ڈالرز کے قرض کو ری سٹرکچر نہیں کرتا اسوقت تک نیا پیکج نہیں دیا جائیگا۔مگر چین نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ وہ واشنگٹن کی خواہشات کے آگے کبھی نہیں جھکے گا‘ وہ مقروض ممالک سے تو بات چیت کر سکتا ہے مگر آئی ایم ایف سے نہیں۔ اس سلسلے کی دوسری مثال زمبیا کی ہے جو افریقہ کے جنوب میں واقع ایک مفلوک الحال ملک ہے۔ دو ہفتے قبل اس ملک میں جشن کا سما ں تھا کیونکہ پیپلز بینک آف چائنا نے اسکے 6.3 بلین ڈالرز کے قرض کی ادائیگی کو تین سال کے لئے مﺅخر کر دیا تھا۔ اسکے فوراً بعد آئی ایم ایف نے 1.3بلین ڈالرز کے پیکج میںسے 188 ملین ڈالرز کی پہلی قسط دینے کی منظوری دے دی۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ بھی دو ہفتے قبل عالمی مالیاتی ادارے نے تین بلین ڈالرزکے ایک بیل آﺅٹ پیکج کا سٹاف لیول معاہدہ کیا ۔ یہ رقم اس6.5 بلین ڈالرز کے پیکج کا حصہ ہے جسکا معاہدہ تحریک انصاف کی حکومت نے 2019میں کیا تھا۔آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسوقت تقریباً دو درجن ممالک ایسے ہیں جو معاشی بدحالی کی وجہ سے اپنے واجبات ادا نہیں کر سکتے۔ ان ممالک کو I.M.F نے گزشتہ سات برسوں میں 185 بلین ڈالرز کے قرضے دئیے ہیں۔ ان سے اربوں ڈالرز انٹرسٹ میں لینے کے باوجودآج بھی بیجنگ اور واشنگٹن کے ساہوکار انہیں مزید قرض دینے کے فیصلے اپنے کھاتوں میں لکھے ہوئے اعدادو شمار کی بنیاد پر کر تے ہیں۔