یوکرین برہم ہے یا بے بس

لیتھو اینیا میں گزشتہ ہفتے ہونیوالے نیٹوممالک کے اجلاس میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی خاصے اکھڑے اکھڑے نظر آ رہے تھے۔ انکے تیور بتا رہے تھے کہ وہ غصے اور ناراضگی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مغربی ممالک کا میڈیا اس تین روزہ اجلاس کے ختم ہونے تک یہی کہتا رہا کہ صدر زیلنسکی اس لیے برہم تھے کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد کا حصہ بنانے کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی ۔ وہ واپس جا کر کیا کہیں گے کہ وہ نیٹواجلاس سے کیا لیکر آئے ہیں ۔ سولہ مہینے کی جنگ میں کئی شہر تباہ کرانے اور ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد بھی انہیں وہ انعام نہیں دیا جا رہا جسکے وہ خود کو مستحق سمجھتے ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوے صدر بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کے عوام نے جس ثابت قدمی اور بہادری سے روس کی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اسکے لیے وہ ستائش کے مستحق ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ وقت آنے پر یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا لیا جائیگا۔ اس اجلاس کے دوران صحافیوں نے کئی مرتبہ یوکرین کی نیٹو میںشمولیت کے بارے میں مختلف سربراہوں سے سوالات کیے مگر کسی نے بھی اسکا مدلل اور مفصل جواب نہیں دیا۔ صدر زیلنسکی کی برہمی کی وجہ یہ نا مکمل جواب تھے۔لیتھو اینیا کے دارلخلافے Vilnius میں نیٹو اجلاس کے اختتام کے بعد کئی تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اس جنگ کے دوران یوکرین کو اس لیے نیٹو کا ممبر نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس اتحاد کے چارٹر کے پانچویں آرٹیکل کے مطابق کسی ایک ممبر پر حملے کو تمام پر حملہ تصور کیا جا ئیگا۔ اس اعتبار سے اگر جنگ کے دوران یوکرین کو ممبر بنادیا جاتا ہے تو اس صورت میں نیٹو ممالک کو اپنی مسلح افواج یوکرین بھجوا کر براہ راست روس کا مقابلہ کرنا پڑیگا۔ صدر بائیڈن کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ ‘ روس تصادم کی صورت میں تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے اس لئے وہ اس حد تک جانے کو تیار نہیں ہیں۔ صدر زیلنسکی اس باریکی کو سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے اس تقاضے پر اکتفا کیا کہ کم از کم یہ اعلان تو کر دیا جائے کہ جنگ کے خاتمے پر یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا لیا جائیگا۔امریکی مبصرین کے مطابق یہ اعلان اگر کر دیا گیا تو روس کبھی بھی اس جنگ کو ختم نہیں کریگا۔ صدر پیوٹن یوکرین پر قبضہ اس لیے کرنا چاہتے تھے کہ وہ نیٹو افواج کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتے تھے۔اگر اس جنگ کا خاتمہ انکے طاقتور دشمنوں کو انکی دہلیز تک لے آئیگا تو وہ اسے کیوں ختم کریں گے۔ بعض جنگیں طویل ہوتی ہیں ور بعض ناتمام ، شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ 1952 میں ہوا تھا۔ اسمیں فریقین نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا اور وہ تمام متنازعہ معاملات جو جنگ شروع کرنے کا باعث بنے تھے کو رہنے دیا تھا۔ اسی لیے دونوں ممالک ابھی تک جزیرہ نما کوریا کو اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ اصلی تنازعہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ ایران عراق جنگ بھی 1980 سے 1988 تک جاری رہی تھی۔یوکرین جنگ میں کیونکہ ایک عالمی طاقت ملوث ہے اس لیے اسے زیادہ دیر تک جاری نہیں رہنے دیا جائے گا۔ ماہرین ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک War Unwinnable ہے۔ اسے کوئی فریق بھی نہیں جیت سکتا۔ فارن افئیرز کے جولائی اگست کے شمارے میں Samuel Charap نے لکھا ہےThe war will end without a resolution to the territorial dispute یعنی یہ جنگ علاقائی تنازعے کا تصفیہ ہوئے بغیر ختم ہو جائیگی اور فریقین کو ایک Defacto Line of control یعنی ناقص لائن آف کنٹرول کو تسلیم کرنا پڑیگا۔فارن افئیرز کے اسی شمارے میں کئی ماہرین نے بائیڈن انتظامیہ کو اس جنگ کو کوریا ماڈل کے مطابق ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ 
چند ماہ پہلے صدر ز یلنسکی کا خیال تھا کہ وہ موسم سرما کے ختم ہوتے ہی اتنا بڑا حملہ کریں گے کہ میدان جنگ کا نقشہ بدل جائیگا‘ مگر روس نے ہر محاذ پر بارودی سرنگوں(Landmines) کے جال بچھا کر دشمن کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق روس نے موسم سرما کے بعد جنگ شروع ہوتے ہی امریکہ کے بھیجے ہوے جدید ترین ٹینکوں اور Howitzer, High mobility rocket system کے تیسرے حصے کو ناکارہ کر دیا ہے۔اب روس نے جارحانہ حملے ترک کر کے ایک دفاعی پوزیشن اختیار کی ہوئی ہے۔ اس صورتحال میں یوکرین کی افواج کے لئے پیشقدمی کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ صدر زیلنسکی کیونکہ اپنے ٹائم ٹیبل کے مطابق فتوحات حاصل نہیں کر سکے اس لیے وہ نیٹو اجلاس میںجدید اسلحے کی کمی کا شکوہ کرتے رہے۔ اسکے جواب میں برطانیہ کے وزیر دفاع Ben Wallace نے کہا کہ یوکرین کو اب تک اربوں ڈالر کا جو اسلحہ دیا گیا ہے اسے اسکا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اسکا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوے زیلنسکی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ Ben Wallace لکھ کر بتا دیں کہ وہ کس قسم کا شکریہ چاہتے ہیں۔ انکے اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خاصے برہم تھے ۔ اس برہمی کو محاذ جنگ کے تلخ حقائق نے کچھ زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے۔ روس اگر Kyiv پر چند ہفتوں میں قبضہ نہیں کر سکا تو یوکرین بھی ابھی تک اپنے مقبوضہ علاقے وا گذار نہیں کرا سکا۔ پیوٹن اور زیلنسکی دونوں کو ایک طویل جنگ کے تلخ حقائق نے بے بس کر دیا ہے۔ دونوں اس وقت شکست سے بچنے کے لئے جنگ کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔