سو سال کی عمر میں ہنری کسنجر نے ایک بار پھر رخت سفر باندھا اور چودہ ہزار میل کا سفر طے کر کے بیجنگ جا پہنچے۔انکا یہ دورہ کئی اعتبار سے پر اسراریت کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ منگل کے دن امریکی حکومت نے اچانک انکے چین جانے کی خبر دی اور اگلے روز بیجنگ میں انکا استقبال کیا جا رہا تھا۔یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ انہیں خصوصی طیارہ بھی مہیا کیا گیا ہے اور ایک میڈیکل ٹیم بھی انکے ہمراہ ہے ۔ ہنری کسنجرچار برس قبل بھی چین گئے تھے مگر اس وقت تجز یہ نگاروں نے انکے دورے کو زیادہ اہمیت نہ دی تھی۔ اب گذشتہ دو ماہ میں صدر بائیڈن کی کابینہ کے چار سینئر وزراءچین کا دورہ کر چکے ہیںانکے فوراً بعد ایک معمر اور قد آور امریکی شخصیت کے اس دورے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ امریکی میڈیا نے انکی چین میں آﺅ بھگت کی خبریں دینے کے بعد خاموشی اختیار کر لی ہے مگر اندازہ و قیاس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی اور پرواز تخیل کے سامنے لامحدود نیلگوں فضائیں پھیلی ہوئیں ہیں۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا چار سینئر وزرا ءکے دورے ناکام رہے اسلئے ایک عمر رسیدہ اور جہاندیدہ سفارتکار کو بھیجنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر سوال و جواب کے لا متناہی سلسلے میں پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اس مرد دانا کا یہ دورہ امریکی قرضوں کے بارے میں تھا ‘ کیا بانڈ مارکیٹ تو کریش نہیں کر رہی۔ ایسا اگر ہو گیا تو کئی ممالک کی معیشت بدحالی کی زد میں آ جائیگی اور چین بھی اسکے اثرات سے محفوظ نہیں رہیگا۔ امریکہ اگر سوا سال تک مسلسل انٹرسٹ ریٹ بڑھانے کے بعد بھی افراط زر پر قابو نہیں پا سکا تو پھر اسکے اپنے ماہرین کے مطابق اسکی معیشت جلد یا بدیر کساد بازاری کا شکار ہو جائیگی۔ اس دلدل سے نکلنے کے لئے کیا امریکہ کو ایک نئی جنگ چھیڑ کر اپنی معیشت کو مہمیز لگانا پڑے گی یا پھر 1929 میں شروع ہونیوالی Great Depression جو دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں ختم ہو ئی تھی کا ایکشن ری پلے دیکھنے میں آئیگا‘ مزید برآںکیاامریکی سٹاک مارکیٹ ایک مرتبہ پھر کریش کر جائیگی‘ کیالوگ دھڑا دھڑ بینکوں سے ڈالرز نکالنا شروع کر دیں گے‘ کیا دیکھتے ہی دیکھتے بین الاقوامی مالیاتی ادارے ایک عالمی بحران کی زد میں آ جائیں گے اور بلآخرعالمی کمرشل بینکنگ سسٹم ڈھیر ہو جائیگا۔ مغربی ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے گریٹ ڈپریشن کی تباہ کاریاں دیکھی ہوئی ہیں اس لیے وہ معاشی کمزوری کے معمولی سے آثار دیکھتے ہی چوکنے ہو جاتے ہیں۔اسکے بعد رہی سہی کثر اقتصادی ماہرین پوری کر دیتے ہیں ۔
امریکی معیشت دان کئی ماہ سے اس موضوع پر غوروخوض کر رہے ہیں کہ کیا افراط زر کو کساد بازاری کے بغیر ختم کیا جا سکتا ہے۔Can Inflation Be Cured Without Recession? معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کریڈٹ کارڈز کے بڑھتے ہوے انٹرسٹ ریٹ لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔ ان بڑھتے ہوے ریٹس کی وجہ سے بانڈ مارکیٹ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ گھروں کی مارٹکیج پر شرح سود کیونکہ بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اس لیے ہاﺅسنگ اور ریئل سٹیٹ میں بھی مندے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔امریکی معیشت کی یہ کارکردگی عارضی ہے یا مستقل اسکا کوئی حتمی جواب نہیں دیا جا رہا۔ ممتاز معیشت دان Ian Shepherd نے کہا ہے Interest rate increases this rapid and this large typically lead to recession اسوقت خوش گمان اور رجائیت پسند معاشی ماہرین بھی کساد بازاری کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے ۔دوسری طرف ڈھائی برس تک کووڈ 19 کی وجہ سے سخت لاک ڈاﺅن کے باعث چین کی معیشت ابھی تک سست روی کا شکار ہے ۔ اسکے ہاﺅسنگ اور رئیل سٹیٹ کے کاروبار وں میں مندے کا رحجان برقرار ہے ‘ برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور مغربی ممالک کی کمپنیاں تائیوان اور انڈیا کا رخ کر رہی ہیں۔
امریکہ اپنی غیر متوقع معاشی صورتحال کے باوجود یوکرین جنگ پر تو اربوں ڈالرز خرچ کر سکتا ہے مگر وہ چین کے ساتھ کسی بھی صورت میں تائیوان کو بچانے کے لئے ایک نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بارے میں کئی امریکی مﺅرخین لکھ چکے ہیں کہ ان دونوں جنگوں میں شکست کی وجہ یہی تھی کہ بہ یک وقت دو جنگیں لڑنے کے لیے نہ وسائل تھے اور نہ ہی انکی منصوبہ بندی کے لیے وقت تھا۔ امریکہ کیونکہ کسی بھی صورت یوکرین جنگ کے دوران چین کے ساتھ کسی عسکری تنازعے میں نہیں اُلجھنا چاہتا اس لیے اس نے چین کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔
سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن‘ Treasury Secretary Janet Yellen ‘ سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم برنز اور ماحولیات کے سیکرٹری جان کیری کے دوروں کے جب خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوے تو پھر آزمودہ کار سابقہ سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر کا دورہ ضروری سمجھا گیا۔ آج سے اکیاون برس پہلے1972 میں اسوقت کے صدر رچرڈ نکسن اور سیکرٹڑی آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے 21سے 28فروری تک چین کا دورہ کر کے امریکہ چین تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔ اسوجہ سے ہنری کسنجر کو آج بھی چین میں بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ چین کے سینئر سفارتکار Wang Yiنے چند روز پہلے اپنے مہمان کو خوش آمدید کہتے ہوے کہا کہ ” ڈاکٹر کسنجرنے امریکہ چین تعلقات کی بنیاد رکھنے میں جو تاریخی کردار ادا کیا ہے ہم اسے آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔“ اسکے علاوہ ہنری کسنجر کی بیجنگ میں جو آﺅ بھگت ہوئی وہ امریکی میڈیا کے مطابق چاروں اہم عہدیداروں کی خاطر تواضع سے کہیں زیادہ تھی۔ ہنری کسنجر نے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے دوران کہا کہ وہ چین کے ایک دوست کی حیثیت سے یہ کہنے آئے ہیں کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کو ہم پلہ سمجھنا چاہئے‘ بد گمانیوں کو دور کرنے کی روش اپنانی چاہئے اور پر امن طریقے سے مل جل کر بااہمی مسائل کو حل کرنا چاہئے۔ ہنری کسنجر کی چین کے صدر اور انکے وزرا سے ملاقاتیں کیونکہ بند کمرے میں ہوئی ہیں اس لیے انکے بارے میں حتمی طور پر کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ مگر سو سالہ برگزیدہ اور گرم و سرد چشیدہ ڈپلومیٹ کی جس طرح بیجنگ میں پذیرائی ہوئی اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ برف ضرور پگلی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا کو ایک بڑی معاشی تباہی سے بچانے کے لئے دونوں عالمی طاقتیں مل جل کر کوششیں کریں گی۔