یکم اگست کو ڈونلڈ ٹرمپ پر تیسری فرد جرم عائد ہونے کے بعد یہ سوالات مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ کیا انکی سیاست کا عہد تمام ہوا یا امریکہ ایک ایسے سیاسی بحران کی لپیٹ میں آگیا ہے جسکا اختتام نظر نہیں آ رہا۔اس نئی فرد جرم میں سابقہ صدر پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے 2020 کے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کے لئے جس سازش پر عملدرآمد کیا تھااسکا مقصد عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے صدر کا راستہ روکنا اور اپنی حکومت کو برقرار رکھنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان مقاصد حاصل کرنے میں تو ناکام رہے مگر انہوں نے امریکی معاشرے کو منقسم کرکے ایک گہرے بحران سے دوچار کردیا ہے۔ گزشتہ ماہ میں ہونیوالے تمام Opinion Polls یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف ریپبلیکن پارٹی کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور دوسری طرف قومی سطح پر وہ صدر بائیڈن کیساتھ انتخابی میدان میں مساوی مقبولیت رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال اس لیے حیران کن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر تین فرد جرم عائد کی گئی ہیں مگر انکی مقبولیت میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں آ ئی۔ان میں سے پہلی فرد جرم ایک خاتون کو 2016 کے الیکشن میں ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر دیکرخاموش کرانے کے بارے میں ہے تا کہ وہ بدنامی کا باعث نہ بنے ‘ دوسری اہم سرکاری کاغذات کے درجنوںڈبے اپنے گھر میں رکھنے اور سرکاری اداروں کے تقاضوں کے باوجود انہیں واپس نہ کرنے سے متعلق ہے اور تیسری انتخابی نتائج میں ردو بدل کے بارے میں ہے۔آجکل کئی ممالک میں حکمرانوں پر طاقت کے ناجائز استعما ل اور کرپشن کے الزامات میں مقدمے چل رہے ہیں۔ ان میں ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو‘ برازیل کے سابقہ صدر جیئرڈ بالسونیرواور پاکستان کے سابق وزیر
اعظم عمران خان قابل ذکر ہیں۔امریکہ کی حالیہ سیاسی تاریخ میں سابق صدر رچرڈ نکسن کا واٹر گیٹ سکینڈل میں استعفیٰ دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ‘ ان دونوں مقدمات میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ رچرڈ نکسن ایک روایتی سیاستدان تھے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے پاپولسٹ لیڈر ہیں جو ریاستی ادادروں کے علاوہ سیاست کے مروجہ اصولوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ پچاس برس پہلے کے امریکہ میں سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط تھیں کہ وہ سیاستدانوں کوپارٹی ڈسپلن کا پابند رکھتی تھیں اسی لئے ریپبلیکن پارٹی نے رچرڈ نکسن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیاتھا۔ آج صورتحال اسکے برعکس ہے‘ ریپبلیکن پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت پر اس لیے مجبور ہے کہ اسکے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد سابقہ صدر کے کسی بھی جرم یا غیر قانونی اقدام کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر حالت میں اسکے ساتھ کھڑی ہے۔ امریکہ کے ریاستی اداروں کے لئے یہ صورتحال اس لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل ایف بی آئی اور جسٹس ڈیپارٹمنٹ پر” صدر بائیڈن کی ©©انتقامی سیاست کے آلہ کار“ بننے کا الزام لگا رہے ہےں اور اسکے ساتھ ہی وہ دوبارہ صدر بننے پر انہیں نکیل ڈالنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ سابقہ صدر کے حمایتی کیونکہ ریاستی اداروں کو اپنے لیڈر کی مشکلات کا ذمہ دار سمجھتے
ہیں اس لیے وہ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔دوسری طرف صدر بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن پر کئی ملین ڈالرز کی کرپشن کے مقدمے میں جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے حال ہی میں ایک ڈیل بنا کر انہیںمحفوظ راستہ دے دیا ہے اس لیے ریپبلیکن پارٹی سخت بر افروختہ ہے۔ اسکے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ پر تین فرد جرم عائد کر دی گئی ہیں تو دوسری طرف صدر بائیڈن کے بیٹے کو معافی دے دی گئی ہے۔ سابقہ صدر تیسری مرتبہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد کئی مرتبہ پوچھ چکے ہیں Where is Hunter Biden وہ اکثر بائیڈن فیملی کو کرائم فیملی کہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے ہنٹر بائیڈن کیساتھ نرمی برتنے کی سختی سے تردید کی ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ریپبلیکن پارٹی اگر مضبوط ہوتی تو وہ پہلی فرد جرم عائد ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی مقابلے سے باہر کر دیتی مگر وہ اس لیے بے بس ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سوشل میڈیا پر اپنے حامیوں کیساتھ مسلسل رابطے میںرہتے ہیں۔انہیں عوام سے تعلق برقرار رکھنے کے لیے کسی جماعت کی ضرورت نہیں۔ امریکہ کے صدارتی طرز حکومت کے بر عکس اگر برطانیہ کے پارلیمانی نظام حکومت کو دیکھا جائے تو وہاں ایک مختلف صورتحال نظر آتی ہے ۔ وہاں حکمران ٹوری پارٹی نے چھ برسوں میں چار وزرائے اعظم تبدیل کئے ہیں۔ ان میں ڈیوڈ کیمرون‘ تھیریسا مے‘ لز ٹرس اور بورس جانسن شامل ہیں۔ برطانیہ میں بورس جانسن ایک ممتاز پاپولسٹ لیڈر تھے لیکن کووڈ کے دوران ٹین ڈاﺅننگ سٹریٹ میں نجی محفلیں منعقد کرنے پر انہیں ٹوری پارٹی نے بر طرف کر دیا۔ امریکہ کا صدارتی نظام دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سہارے چل رہا ہے مگر ان میں سے ایک جماعت کیونکہ ایک پاپولسٹ لیڈر کے تسلط میں ہے اس لیے اسکا بحران مستقبل قریب میں ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔