بھارت کی سیاسی شطرنج

بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے کہ بھارت نہ صرف ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے بلکہ وہ بہت جلد چوتھی عالمی طاقت بھی بن جائیگا۔ اس دعوے کے ثبوت میں بھارت کی حکمران جماعت اپنی معاشی ترقی کی مثال دیتی ہے ۔ اسکے لیڈروں کا کہنا ہے کہ انکا ملک برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور اس عشرے کے آخر تک وہ تیسری بڑی معیشت بن جائیگا۔ جون کے مہینے میں جس طرح نریندر مودی کا واشنگٹن میں پر تپاک استقبال کیا گیا اسکے بعد انڈین میڈیا بڑے فخر سے کہہ رہا ہے کہ آج امریکہ اور روس دونوں کو جتنی بھارت کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ یوکرین جنگ میں روس کی مخالفت نہ کرنے کے باوجود اگر واشنگٹن میں بھارتی وزیر اعظم کے لئے سرخ قالین بچھایا جاتا ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ نئی دہلی عالمی سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہاہے۔ اس تناظر میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر اوقات امریکہ کی سیاسی ضرورتیں اسے طاقتور اتحادی تخلیق کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ چند برس پہلے تک امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی اور فرنٹ لائن سٹیٹ جیسے روشن اور چمکدار اعزازات دے رکھے تھے لیکن افغان جنگ کے ختم ہوتے ہی امریکہ نے جس طرح آنکھیں بدلیں اس پر کسی کو حیرانگی اس لیے نہیں ہوئی کہ امریکہ ہمیشہ سے ایسے ہی کرتا آیا ہے۔ جس طرح پاکستان کو وقتی طور پر ایک قابل اعتماد وست ہونے کا جھا نسا دیا گیا اسی طرح آج بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ مگر یہاں ا س فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت 75 برسوں سے مسلسل ایک غیر جانبدار ملک چلا آ رہا ہے۔ سترہ برس تک بھارت کے وزیر اعظم رہنے والے جواہر لعل نہرو نے سرد جنگ کے آغاز ہی میں کہہ دیا تھا کہ ©” ہم روس کے طرفدار ہیں اور نہ ہی امریکہ کے ‘ ہم صرف انڈیا کے طرفدار ہیں۔“ نہرو کی اس غیر جانبدار خارجہ پالیسی کی وجہ سے بھارت کو آج تک کسی بھی عالمی طاقت کی پراکسی جنگ نہیں لڑنا پڑی۔
مغربی ممالک بھارت کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کے دعوے کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ نئی دہلی کئی عشروں سے اپنی دفاعی ضروریات کا ساٹھ فیصد جنگی سامان روس سے خرید رہا ہے۔ روس‘ انڈیا سے اپنے تعلق کو کتنی اہمیت دیتا ہے اسکا اندازہ اس سے لگایا سکتا ہے کہ ماسکو نے اپنی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی انڈیا کو دینے میں کبھی بھی تامل نہیں کیا۔ روس ‘ یوکرین جنگ سے پہلے بھی انڈیا کوطویل عرصے سے نہایت سستی قیمت پر گیس مہیا کرتا رہا ہے۔ ان تمام باہمی ضروریات اور مفادات کے علاوہ بھارت کو روس کی دوستی کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ وہ ماسکو کو مکمل طور پر چین کے حلقہ اثر میں نہیں جانے دینا چاہتا۔ ماسکو اگر بھارت کو نظر انداز کر کے بیجنگ کا اتحادی بن جاتا ہے تو اس صورت میں نئی دہلی کو ایک کی بجائے دو عالمی طاقتوں سے نبرد آزما ہونا پڑیگا ۔ اس لیے وہ چین اور روس میں فاصلے برقرار رکھنے کے لیے ماسکو کیساتھ تجارتی روابط بحال رکھنے کی پالیسی کو زیادہ فائدہ مند سمجھتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اسے اگر مغرب سے بے رخی برتنی پڑے تو وہ ایسا کر گزرتا ہے۔یہ طرز عمل بھارت کے غیر جانبدار ہونے کی قلعی کھول دیتا ہے۔ اسکے باوجود آج تک بھارت کی کسی بھی حکومت نے روس کی طرف اپنے جھکاﺅ میں کمی نہیں آنے دی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ علاقائی سیاست کو عالمی دھڑے بندی پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ روس کو امریکہ سے زیادہ قابل اعتبار سمجھتا ہے۔مگر اب امریکہ اس سے ایک بڑا عالمی کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہ کردار امریکہ کے شانہ بہ شانہ چین سے مقابلہ کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے انڈو پیسیفک کے علاقے میں چار ممالک پر مشتمل کواڈ کے نام سے یک عسکری اتحاد بنا رکھا ہے ۔ اسمیں امریکہ‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے بھارت چین کے خلاف امریکہ کی پراکسی جنگ لڑنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ نئی دہلی کے حکمران اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ لداخ میں چین کی جارحیت کے جواب میں اسکا امریکہ پر انحصار بڑھ گیا ہے اور دوسرا یہ کہ 2022 میں ا مریکہ اور انڈیا کی باہمی تجارت کا حجم 131 بلین ڈالرز تھا جو کہ رواں سال کے آخر تک 190 بلین ڈالرز ہو جائیگا ۔ اسکے علاوہ امریکہ انڈیا کو سیمی کنڈکٹرز اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی بھی منتقل کر رہا ہے۔ سپیس ریسرچ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں امریکہ کی معاونت بھارت کی انٹیلی جینس صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد دے گی۔ امریکہ سے اتنے زیادہ معاشی اور عسکری فائدے حاصل کرنے کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات ون وے سٹریٹ نہیں ہیں۔ امریکہ کو چین کے خلاف انڈو پیسیفک کے علاقے میں بھارت کی شدید ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ بھارت کی انٹیلی جینس صلاحیتیں اور مضبوط نیوی بھی امریکہ کے کام آ سکتی ہے۔ امریکہ کیساتھ اتنے گہرے معاشی اور تزویراتی تعلقات کے باوجود گذشتہ سال میں چین اور بھارت کی باہمی تجارت کا حجم 136 بلین ڈالرز تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے ایک طویل عرصے سے جو سیاسی شطرنج بچھا رکھی ہے وہ اس میں بڑی مہارت سے تینوں عالمی طاقتوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر ماہرین کے مطابق وہ زیادہ دیر تک شاید اس بیلنسنگ ایکٹ کو جاری نہ رکھ سکے گا۔ امریکہ اور چین کے مابین اگر تناﺅ میں اضافہ ہوتا ہے اور اس صورت میں بھارت کواڈ میں ایک فعال کردار ادا کرنے پر مجبورہوو جاتا ہے تو پھر چین ‘ لداخ کے علاقے میں دباﺅ بڑھا دیگا ۔ اس محاذ پر ایک بڑی جنگ دونوں ممالک کے تجارتی روابط کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اسی طرح یوکرین جنگ اگر طوالت اختیار کرتی ہے تو اس صورت میں روس کا چین پر انحصار بڑھ جائیگا جس کے بعد ماسکو ‘ بیجنگ کو بھارت کے لئے نرم رویہ اختیار کرنے کی تلقین نہ کر سکے گا۔ نظر یہی آ رہا ہے کہ تینوں عالمی طاقتوں کے درمیان اگر کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس صورت میں بھارت کے لیے اپنی بچھائی ہوئی شطرنج پر مزید چالیں چلنے کے مواقعے معدوم ہو جائیں گے۔داخلی سیاست کے حوالے سے بیس کروڑ مسلمان جو بھارت کی کل آبادی کا پانچواں حصہ بنتے ہیں کو معاشی مواقع سے محروم رکھنا اور انہیںمسلسل خوف اور محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والا ملک کسی بھی صورت خوشحال نہیں ہو سکتا۔ بھارت اگر اپنی اقلیتوں کیساتھ حالت جنگ میں رہتا ہے تو اسکی خوشحالی کے دعوے بہت جلد نقش بر آب ثابت ہو جائیں گے۔کسی بھی ملک کا داخلی انتشار بلآخر اسکے زوال کا باعث بن جاتا ہے۔