ٹرمپ کے مقدمے اور مقبولیت

ڈونلڈ ٹرمپ پر چار مختلف ریاستوں میںچار فرد جرم عائد کی گئی ہیں۔ ان پر لگائے جانیوالے الزامات کی تعداد اکیانوے ہے اور ان میں سے ہر ایک میں انہیں تین سے بیس سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ چند روز پہلے جارجیا میں عائد کی جانے والی فرد جرم اس لیے زیادہ سنگین سمجھی جا رہی ہے کہ اسمیں ان پر مجرموں کے ایک ایسے گینگ کا سربراہ ہونے کا الزام ہے جس نے 2020 میں اس ریاست کے انتخابی نتائج ایک سازش کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔جارجیا کی گرینڈ جیوری نے سابقہ صدر کے علاوہ انکے اٹھا رہ ساتھیوں پر بھی فرد جرم عائد کی ہے۔ ان سب پر ایک ایسے گینگ کا ممبر ہونے کا الزام لگایا گیا ہے جس نے جارجیا کے سرکاری ملازمین پر الیکشن کے دوران دباﺅ ڈال کر انہیں غیر قانونی کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اس فرد جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک ایسے Mob یا گروہ کا باس ہونیکا الزام ہے جس نے وائٹ ہاﺅس میں تیار کئے گئے ایک منصوبے کے تحت جارجیا کے ووٹروں کوانکے حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی۔اسکے علاوہ سابقہ صدرکے ساتھیوں پر انتخابی مشینری پر قبضہ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔یہ تمام الزامات اتنے سنجیدہ نوعیت کے ہیں کہ ماہرین کی رائے میں کوئی بھی دوسرا ملزم Trial یا عدالتی کاروائی کے بجائے استغاثہ سے سمجھوتہ( Plea Bargaining) کر کے سزا میں رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا‘ مگر ڈونلڈ ٹرمپ ایسا نہیں کر رہے کیونکہ انہیں ایک تو اپنے پرستاروں کی وفاداری پر مکمل بھروسہ ہے اور دوسرا وہ جانتے ہیں کہ دوسری مرتبہ صدارت حاصل کر لینے کے بعد وہ اپنے صدارتی اختیارات کو استعمال کر کے یا تو خود کو معافی دے سکتے ہیں اور یا جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیکر یہ مقدمات ختم کرا سکتے ہیں۔ لیکن امریکی صدر کا دائرہ اختیار صرف وفاقی عدالتوں تک ہوتا ہے وہ ریاستی عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ لیکن کسی بھی ریاست کے پاس صدر امریکہ کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں ہے اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارت حاصل کر لیتے ہیں تو وہ چار برس تک قانون کی گرفت سے آزاد رہیں گے۔اگلے چودہ ماہ میں انتخابی مہم کے دوران بھی کسی ریاست کےلئے انہیں گرفتار کرنا آسان نہ ہو گا۔ انکی مقبولیت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ چار فرد جرم عائد ہونیکے باوجود بھی انکی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ نہ صرف ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی مقا بلے کی دوڑ میں فرنٹ رنر ہیں بلکہ انکی جماعت بھی خاصی حد تک انکے قبضے میں ہے۔ یہاں یہ سوال اہمیت اختیار کر لیتا ہے کہ چار مختلف ریاستوں میں چار مختلف سنجیدہ قسم کے مقدمات میں ملوث ہونیکے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی کیوں نہیںآئی۔بعض تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کو ہمیشہ نشانے کی زد پر رکھتے ہیں اور انکے پرستار کیونکہ Status Quo یعنی موجودہ صورتحال کے سخت خلاف ہیں اس لیے وہ ہر حال میں انکا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔ ان پرستاروں کو اس بات سے کوئی غرض و غایت نہیں کہ انکے لیڈر پر کتنی ریاستوں میں کتنے مقدمات قائم ہیں وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی وہ شخص ہے جو انکے دشمنوں کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے ۔ یہ صلاحیت کیونکہ دوسرے کسی بھی لیڈر میں نہیں ہے اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ ہر حال میں انکی مکمل حمایت اور تعاون کا حقدار ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت کا ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں کمر بستہ ہونا اس لیے امریکی ریاست اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ سمجھا جا رہا ہے کہ لوگ Criminal Justice System کو گہرے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس الزام کو درست سمجھتے ہیں کہ ریاستی اداروں کو انکے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ سابقہ صدر جب کبھی اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر ٹویٹ کر کے اپنے ساتھ ہونیوالی بد سلوکی کا ذکر کرتے ہیں تو انکا یہ بیان فوراً بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین ‘ ان چار فرد جرم کے عائد ہونے کے باوجود انکی مقبولیت میں کمی نہ آنے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ انکے پرستار انکی پرستش اس لیے کرتے ہیں کہ انکا لیڈر تمام غیر قانونی حرکات کا ارتکاب کرنے کے باوجود ان قوانین‘ ضابطوں اور اداروں کو خاطر میں نہیں لاتاجو امریکی جمہوریت کےلئے لازم ملزوم ہیں۔ڈیمو کریٹک پارٹی کے حامیوں کی رائے میں ٹرمپ کے پرستار اس لیے غصے میں ہیں کہ وہ امریکی حکومت کے بنیادی ااصول و ضوبط سے متفق نہیں ہیں‘ وہ ریاستی اداروں کو ڈیپ سٹیٹ سمجھتے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کیونکہ امریکی حکومت اور جمہوریت کے بنیادی قوانین اور اداروں کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے اس لیے انکے پرستاروںنے ہر حال میں انکا ساتھ دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔وہ آئین اور قانون کے حق میں دی ہوئی کسی دلیل کو سننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں وہ سابقہ صدر کے پرستاروں کے تمام Talking Points سے مکمل طور پر آگاہ ہیں مگر اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر چار ریاستوں میں قائم شدہ چار مقدمات اور اکیانوے الزامات کو معاف کر کے یہ ثابت کر دیا جائے کہ قانون اتنا کمزور ہے کہ وہ ایک مشہورو معروف شخص کو گرفت میں لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ انکی رائے میں اس طاقتور شخص کو کٹہرے میں کھڑا کرنا امریکی جمہوریت کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ایسا اگر نہ کیا گیا تو حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کا جواز کھو بیٹھے گی۔ ممتاز کالم نگار Charles Blow نے بیس جولائی کے کالم میں لکھا تھا کہ امریکہ کی قانون اور انصاف سے کمٹمنٹ کا تقاضہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اسے اپنی بیگناہی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے۔ کالم نگار کی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسا آئیڈیا بن چکا ہے جو ایک طاقتور شخص سے زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔