گزشتہ بدھ کی شب ہونیوالے پہلے صدارتی مباحثے کی اہم ترین بات یہ تھی کہ ا س میں ریپبلیکن پارٹی کے فرنٹ رنر ڈونلڈ ٹرمپ شامل نہیں تھے۔ سابقہ صدر کی اس حکمت عملی کے پیچھے انکی یہ سوچ کارفرما تھی کہ سٹیج پر کھڑے آٹھ امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی مقبولیت میں انکی گرد کو نہیں پا سکتا‘ اس لیے ان طالع آزماﺅں کو ایک بڑی تعداد میں سامعین مہیا کرنا ایک غیر دانشمندانہ فعل ہو گا۔ ظاہر ہے اس مباحثے میں ٹرمپ کی موجودگی ایسے مقناطیس کا کام کرتی جس نے کروڑوں لوگوں کو متوجہ کر لینا تھا اور اس طرح سے ٹرمپ کے حریفوں کو ایک بڑا مجمع میسر آ جاتا جس کے سامنے انہیں اپنے فن خطابت کو آشکارا کرنے کے مواقع میسر آ جاتے۔ تئیس اگست کو وسکانسن کے شہر ملواکی میں ہونے والے اس مباحثے کے بعد ستائیس ستمبر کو کیلیفورنیا کے شہر سیمی ویلی میں ہونے والے دوسرے مباحثے میں بھی شاید سابقہ صدر غیر حاضر ہی رہیں گے ‘ لیکن وہ اسکے بعد ہونیوالے مباحثوں میں بھی اگر شامل نہ ہوے تو بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں وہ غیر متعلق ہوسکتے ہیں۔ انکے پرستار اور جانثار تو ہر حال میں انکے ساتھ رہیں گے مگر یہ گروہ انہیں ریپبلیکن پارٹی کا امیدوار بنانے کے لیے کافی نہیںہے اسلئے جلد یا بدیر انہیں مباحثوں کے اس میدان کارزار میں اترنا پڑیگا۔ ملواکی کی ڈیبیٹ میںڈونلڈ ٹرمپ موجود نہ ہونے کے باوجود بھی اس لیے موجود تھے کہ انکی کمی بھی محسوس کی گئی اور انکا ذکر بھی بار بار ہوتا رہا۔
اس مباحثے کا ڈرامائی لمحہ اسوقت آیا جب فاکس نیوز چینل کے ماڈریٹر نے یہ سوال پوچھا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالت سے سزا ہو جاتی ہے اور وہ ایک Convicted Criminal ثابت ہو جاتا ہے تو کیا آپ اس صورت میں بھی اسکی حمایت کریں گے۔ اس سوال کے جواب میں سٹیج پر کھڑے آٹھ امیدواروں سے ہاتھ اٹھانے کا کہا گیا۔ یہ سب امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دیکر صدر امریکہ بننا چاہتے ہیں مگر ان میں سے چھ نے ہاتھ کھڑے کر کے اپنے حریف کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ انکی اس حمایت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسکی سیاست سے متفق ہیں بلکہ وہ تو
ڈونلڈ ٹرمپ کے ان لاکھوں جانثا روں کی ہمدردیاں نہیں کھونا چاہتے جنکے ووٹوں کی انہیں سخت ضرورت ہے۔ وہ اپنے حریف کے پرستاروں کی دل آزاری کیے بغیر انہیں اپنے حق میں قائل کرنا چاہتے ہیں۔ ریپبلیکن پارٹی کے ان چھ عوامی نمائندوں کا ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے کا مطلب یہی ہے کہ انہیں ایک سزا یافتہ مجرم کو اپنے ملک کا صدر بنانے میں کوئی اعتراض نہیں۔یہ چھ منجھے ہوئے سیاستدان جو خود بھی صدر امریکہ بننا چاہتے ہیں کا ایک مجرم کو اپنے ملک کا چیف ایگزیکٹو بنا نے کا اعلان کوئی اتنا غیر متوقع نہ تھا مگر اسکے حیران کن اور معنی خیز ہونے سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا۔ایک ایسا شخص جس پر آئین سے روگردانی کا الزام ہو‘ جس پر 2020 کے صدارتی الیکشن کے نتائج کو ایک سازش کے کے ذریعے تبدیل کر نے کا مقدمہ چل رہا ہو‘ جس پر چار مختلف ریاستوں میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہو‘ جو اپنی پہلی صدارت کے اختتام پر وائٹ ہاﺅس سے جاتے وقت اہم دستاویزات کے درجنوں ڈبے اپنے ساتھ لے گیا ہو ‘ جس نے ریاستی اداروں کے بار بار کہنے کے باوجود یہ کاغذات واپس نہ کیے ہوں ‘ جس پر قائم شدہ سنگین ترین مقدمہ یہ ہو کہ اس نے جنوری2021 میں ایک ہجوم کو واشنگٹن میں کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے کی ترغیب دی ہو اور جس پر ایک مشہور اداکارہ کو 2016 کے الیکشن میں ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز دیکر خاموش رہنے پر آمادہ کرنے کا الزام ہو ‘ اسے آخر کیسے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا صدر بنایا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پرستار وں کی ہر حال میں اپنے ہیرو اور مسیحا سے وابستگی تو سمجھ میں آتی ہے
مگر چھ آزمودہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ عوامی نمائندوں کا ایک ایسے شخص پر اعتماد کا اظہار کیا معنی رکھتا ہے جس پر چار مقدمات میں اکیانوے الزامات لگائے گئے ہوں۔ کیا یہ مشہورو معروف ملزم اتنا خوش قسمت ہو گا کہ ان تمام الزامات سے صاف بچ کر نکل جائے۔ یہ کل کلاں کو جیل چلا گیا تو پھر کیا ہو گا، یہ وہ مخمصہ اور اُلجھن ہے جو نہ صرف یہ سوال پوچھنے والوں کو درپیش تھابلکہ یہ سوال تو پوچھا ہی اسی لیے گیا تھا کہ شائد اسکا کوئی معقول جواب مل جائے۔
ریپبلیکن پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کو چھوڑ کر اگلے دور میںقدم رکھنا چاہتی ہے مگر اسے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ سابقہ صدر اسکے گلے کی پھانس بن چکا ہے۔ وہ جو بائیڈن کے مقابلے میں 2020 کا صدارتی الیکشن ہار چکا ہے اور اسکے بعد اسکی وجہ سے اسکی جماعت 2022 کا مڈ ٹرم الیکشن بھی بڑے مارجن سے ہار چکی ہے مگر اسکے باوجود کئی سرویز کے مطابق ریپبلیکن پارٹی کے کم از کم تیس فیصد ووٹرز ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ ہی انکے دشمنوں کو نکیل ڈال سکتا ہے۔
اس مباحثے کا دوسرا اہم ترین لمحہ وہ تھا جب بھارتی نژاد صدارتی امیدوار ویوک راما سوامے نے یہ کہہ کر ناظرین کی توجہ حاصل کر لی کہ امریکہ کو کئی عوارض لا حق ہیں ‘ لاکھوں کی تعداد میں لوگ مایوسی اور نا امیدی کیوجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ انکی بات ختم ہونے سے پہلے ہی سابقہ نائب صدرمائک پنس نے کہا کہ امریکہ کا اصل مسئلہ ایک فعال قیادت ہے‘ بیماری امریکی قوم کو نہیں بلکہ واشنگٹن کو لاحق ہے۔ اسکے بعد اڑتیس سالہ راما سوامے اور باسٹھ سالہ مائیک پنس میں ہونیوالا زور دار مکالمہ اس مباحثے کی شہ سرخی بن گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ امریکہ کی دو مختلف نسلیں سیاسی اور سماجی مسائل کو کس انداز سے دیکھتی ہیں۔ انکے نقطہ ہائے نظر کتنے مختلف ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے انکی سوچ میں کتنا اختلاف ہے۔ ان صدارتی مباحثوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ نئی قیادت کو سامنے آنے کا موقع ملتا ہے اور دوسرا یہ کہ مختلف طبقہ ہائے فکر کی عمومی سوچ اور ذہنی میلانات کا پتہ چلتا ہے۔