بائیڈن اور مودی کےلئے ویک اپ کال

گذشتہ چند دنوں میں کینیڈا ا نڈیا کشیدگی کے بارے میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اس موضوع میں بظاہرتازگی کے آثارنظر نہیں آ رہے مگر اسکی ایک جہت ایسی بھی ہے جو پاکستان کے نیوز میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس جہت پر انڈیا کے سنجیدہ فکر تجزیہ کار بڑی خیال آرائیاں کر رہے ہیں۔ امریکہ میڈیا بھی پوچھ رہا ہے کہ کینیڈا میں قتل کی اس بہیمانہ واردات کے بعد واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات کیا صورت اختیار کریں گے۔اٹھارہ جون کے دن کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر Vancouver میں واقع گرو نانک سکھ گردوارے کے پارکنگ لاٹ میں دن دھاڑے ایک سکھ رہنماہردیپ سنگھ نجار کے قتل نے ایکطرف کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے تو دوسری طرف امریکہ اور انڈیا کی دوستی کی چکا چوند کو بھی ماند کر دیا ہے۔ نریندر مودی ابھی جی ٹونٹی کانفرنس کی تحسین و آفرین کو پوری طرح سمیٹ بھی نہ پائے تھے کہ کینیڈا نے انڈیا پر دہشت گردی میں ملوث ہونیکا الزام لگا کر نئی دہلی میں جشن منانے والوں کو سوگوار کر دیاہے۔ ہر دیپ سنگھ نجار کے قتل میں ایک انڈین سفارتکار کے ملوث ہونیکا الزام اگر صرف کینیڈین انٹیلی جنس ایجنسی نے لگایا ہو تا تو صورتحال اتنی گھمبیر نہ ہوتی مگر اسکی تصدیق کیونکہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی نے بھی کر دی ہے ا سلئے مودی سرکار کےلئے اس مصیبت کو ٹالنا اتنا آسان نہ ہو گا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو ڈھائی ماہ تک سفارتکاری کے ذریعے نئی دہلی کو اس معاملے میں تعاون کرنے پر آمادہ کرتے رہے مگر مودی حکومت نے کوئی سنجیدہ مﺅقف اختیار کرنے کے بجائے الٹا کینیڈا پر دہشت گردی کے الزامات لگانا شروع کر دئیے۔ ہردیپ سنگھ کینیڈا میں خالصتان تحریک کا سربراہ ہونیکی وجہ سے گذشتہ تین برسوں سے انڈیا کو مطلوب تھا ۔ کینیڈین انٹیلی جنس ایجنسی کئی مرتبہ ہردیپ سنگھ کو اپنی حفاظت کرنے کے مشورے دے چکی تھی۔وین کوور کے گردوارے میںہونیوالے قتل کی اس واردات میں پر اسراریت کا عنصر اس لئے عنقا ہے کہ کینیڈا کی انٹیلی جنس نے انڈین سفارتکار کی قاتلوں کے ساتھ ہونیوالی گفتگو کو ریکارڈ کیا ہوا ہے۔ جسٹن ٹروڈو نے چند روز پہلے امریکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ” امریکہ اور کینیڈا دونوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور جس طریقے سے انڈیا کی خفیہ ایجنسی دوسرے ممالک میں کام کرتی ہے اسے تبدیل کرنا پریگا“ جسٹن ٹروڈو نے جی ٹونٹی کانفرنس کے دوران نریندر مودی کی توجہ اس واقعے کی طرف دلا کر تعاون کا مطالبہ کیا تھا مگر مودی کے غیر سنجیدہ رویے کو دیکھتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے نئی دہلی کی تقریبات میں شمولیت نہ کر کے مودی حکومت کو ویک اپ کال دے دی تھی مگر انکی برہمی پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔نریندر مودی جس طرح مبینہ طور پر اپنی خفیہ ایجنسی RAW کے ہاتھوں ہونیوالے اس قتل کو غیر ذمہ دارانہ طریقے سے برت رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس واقعے کی سنگینی کا احساس نہیں ۔ کینیڈا اس لئے کوئی عام ملک نہیں ہے کہ وہ ایک اہم مغربی اتحاد Five Eyes کا ممبر ہونے کے علاوہ امریکہ کا ہمسایہ بھی ہے۔ فائیو آئیز میں امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیو زی لینڈ شامل ہیں۔ یہ پانچوں سفید فام ممالک صدیوں پرانے Caucasian قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی خفیہ ایجنسیاں مل جل کر کام کرتی ہیںاور ایکدوسرے کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ اب اگر امریکی خفیہ ایجنسی نے اپنی کینیڈین ہم منصب کے انڈیا کے خلاف لگائے ہوے الزامات کو مستند قرار دے دیا ہے تو یہ نریندر مودی کے علاوہ صدر بائیڈن کے لئے بھی ایک ویک اپ کال ہے۔ جی ٹونٹی کانفرنس میں صاف نظر آ رہا تھا کہ امریکی صدر انڈیا کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنےکا تہیہ کیے ہوئے تھے۔ اس مقصد کے حصول کےلئے وہ نریندر مودی کو غیر ضروری اہمیت دیتے ہوئے نظر آئے مگر اب انکے فائیو آئیز گروپ کے ایک اتحادی نے انکے نئے تزویراتی پارٹنر پر دہشت گردی میں ملوث ہونیکا الزام لگا کر انہیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کا مشورہ دیاہے۔ اب امریکہ میںپوچھا جا رہا ہے کہ کیا صدر بائیڈن واقعی انڈیا سے ہنی مون ختم کر کے معمول کے پرانے تعلقات کی طرف لوٹ جائیں گے۔ وہ اگر ایسا کرتے ہیں تو پھر انڈو پیسیفک کے علاقے میں امریکہ ‘ چین کا مقابلہ کیسے کریگا۔ نظر یہی آ رہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ مودی حکومت کے ساتھ ایک سنجیدہ مکالمہ کر کے اسے خارجی معاملات میں اپنے طور طریقے بدلنے کی تلقین کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہ کر سکے گی۔ اسکے بعدنریندر مودی اگر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں اورمقدمے کی تہہ تک پہنچنے اور قاتلوں کی گرفتاری میں تعاون نہیں کرتے تو انکا ملک مغربی ممالک کےلئے ناقابل اعتبار ہو جائیگااور اگر مغربی خفیہ ایجنسیاں ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں RAW کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت پیش کر دیتی ہیں تو اس صورت میں انڈیا کی عالمی برادری میں کیا ساکھ رہ جائیگی اور اس کے بعد کیا صدر بائیڈن انڈیا کو بڑے فخر سے اپنا تزویراتی پارٹنر کہہ سکیں گے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کل تک اپنے ہمسایوں پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگانے والا انڈیا آج خود عالمی عدالت کے کٹہرے میں اپنے چہرے پر دہشت گردی کا داغ سجائے کھڑا ہے۔