ایک اہم گذر گاہ اور روہتاس قلعہ

 شیر شاہ کی شاہراہ اعظم پاکستان میں جہلم کے قریب قلعہ رہتاس کے پہلو سے لگی رہا کرتی تھی رات دن سینکڑوں ہزاروں قافلے اور کاروان ادھر سے گزرا کرتے تھے کسی شہ رگ میں دوڑنے والے خون کی طرح مگر بعد میں انگریزوں نے اس سڑک کوندی نالوں کے اس علاقے سے ہٹاکر پانچ میل دور دیناکی طرف موڑ دیا اب جدھر سے سڑک گزرتی ہے ادھر سے خلق خدا گزرتی ہے اور رہتاس تنہا کھڑا ہے میں صبح تڑکے راولپنڈی سے جیپ میں بیٹھ کر رہتاس پہنچا ابھی اتنا سویرا تھاکہ دنیا سے جہاں ہماری گاڑی رہتاس جانے والی تنگ اور خستہ حال سڑک پر مڑی وہاں گاڑیوں سے محصول لینے والا شخص بھی ڈیوٹی پر نہیں آیا تھا اور جس وقت ہم قلعے کے دروازہ خواص خانی پر پہنچے تو صبح کے سورج کی پہلی کرنوں میں یہ ساڑھے چار سو سال پرانی عمارت یوں لگی جیسے سونے کے پانی میں نہائی ہو رہتاس قلعے کے بارہ شاندار دروازے‘ستر کے قریب برج‘دوہزار سے ذرا کم کنگرے‘ ساڑھے نوہزار سیڑھیاں‘ پانچ نقار خانے‘تین باؤلیاں ایک شاہی مسجد‘پھانسی خانہ اور شیر پنجرہ دیکھتے ہوئے ہم آگے چلے بہت بلند رانی محل کا نظارہ کرتے ہوئے ہم سفید محل کی سڑھیاں چڑھے وہ عالم اس خواب جیسا تھا کہ جس میں کتنی ہی سیڑھیاں چڑھیں وہ ختم ہونے کو نہیں آتیں اس روز کی سیڑھیاں طے کرتے جب ہم اس بلندی پر پہنچے جہاں ایک بڑا کمرہ تھا اور جس میں ہرطرف جھرو کے کھلتے تھے اور ٹھنڈی ہوا فراٹے بھرتی تھی اور ترکی کے پہاڑوں سے راجا پورس کے میدان جنگ تک تلے اوپر منظر ہی منظر دکھائی دیتے تھے یہ عمارت اب حویلی مان سنگھ کہلاتی ہے کبھی اکبر کا یہ سپہ سالار یہاں رہا ہوگا اینٹوں کی اس عمارت کے اندر کبھی چینی کے برتنوں جیسا روغنی پلاسٹر کیاگیا ہوگا جو کبھی کا گرگرا کر برابر ہوا البتہ اس پلاسٹر کا ایک حصہ ایک جھروکے کی چھت میں بچا ہے میں قریب جاکر اسے غور سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا خبر پرانے زمانے کے لوگ اس دیوار پر کچھ لکھ گئے ہوں اچانک میری نگاہ کچھ تحریروں پر جم گئی وہ جو پرندوں کے پرتراش کر قلم بنائے جاتے تھے اور انہیں سیاہی میں ڈبو کر لکھا جاتا تھا‘ ان ہی قلموں سے جھروکے کی چھت پر کچھ لکھا ہوا تھا یہ دیکھو‘یہ دیکھو‘مہم قندھار‘ میں چھوٹے بچوں کی طرح چلایا اور قلعے کے وہ تمام باشندے جو ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے وہاں آگئے کسی نے اوپر چڑھ کر ان تحریروں کو پڑھا تو’مہم قندھار‘ کے علاوہ وہاں فارسی شعر لکھے تھے کچھ لوگوں کے نام اور کچھ تاریخیں درج تھیں۔اس کے علاوہ رضا علی عابدی قلعہ رہتاس میں لگے کتبوں سے متعلق بھی بتاتے ہیں کہ یہ کوئی باقاعدہ کتبے تو نہیں ہیں‘ ظاہر بات ہے کہ وہاں کچھ دیر کو جو سپاہی یا امرا ٹھہر گئے تھے ان لوگوں میں غالباً شعر و شاعری کا مشغلہ تھا تو ان لوگوں نے جو شعر کہے وہ دیوار پر لکھ دئیے اور جھروکے کی چھت پر اس لئے لکھے کہ مٹ نہ جائیں اور بہت عرصے باقی رہیں‘ چنانچہ یہی ہوا کہ مٹے نہیں اور آپ ان کی تصویریں لے کر آئے ہیں‘ یہ شعر بہت دلچسپ ہیں‘ ان میں بے ثباتی دنیا کا احساس ملتا ہے‘ ان عبارتوں کی جو سب سے اہم خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں تاریخ دی ہوئی ہے‘ جس تاریخ کی یہ تحریر ہے اس سے پہلے قندھار میں ایک واقعہ ہوا تھا‘ قندھار کے قلعے پر شاہ جہاں نے اس زمانے میں دولت خاں نامی ایک امیر کو مقرر کر رکھا تھا جو بڑا وجیہہ تھا لیکن بہت بوڑھا ہوچکا تھا‘ وجاہت کی بنیاد پر تقرر کردیاگیا‘ چونکہ شاہ عباس ثانی اور جہانگیر میں بڑی دوستی تھی یہ گمان بھی نہیں تھا کہ حملہ ہوگا لیکن شاہ عباس ثانی شکار کھیلتے ہوئے قندھار پہنچ گئے اور پہنچتے ہی انہوں نے قلعہ بھی لے لیا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ جو مغل سپاہ تھی وہ پسپا ہو کے وہاں سے بھاگی‘ اسی میں یہ لوگ بھی آئے اور انہوں نے رہتاس میں پڑاؤ ڈالا‘ دیوار پر جو نام لکھے ہیں ان میں کچھ نام تاریخی ہیں‘ جیسے شیخ نعمت اللہ‘ شاہ جہاں نامے میں ان کا تذکرہ ہے کافی‘ ایک اور نام ہے میر شریف کا‘ یہ بارہ سو سوار کے آدمی تھے‘ لیکن جو شعر صاف لکھے ہیں اور پڑھے جاتے ہیں وہ کسی سرور بقلانی کے ہیں‘ ان کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ ان کا منصب کیا تھا‘ مگر ظاہر بات ہے کہ یہ بھی کچھ ہوں گے‘ اتنے بڑے قلعے میں ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ پرانے کتبے بہت کم ملتے ہیں‘ بس کہیں اس کی تعمیر کی تاریخیں اور اخراجات کا حال لکھا ہے اور ایک جگہ کہتے ہیں کہ کسی کتبے میں لکھا ہے کہ قلعے کی تعمیر کے وقت یہاں اتنے بہت سے مزدور اور سپاہی رہتے تھے کہ ان کے لئے روزانہ جو دال پکائی جاتی تھی اس کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دال میں جو ہر روز ہینگ ڈالی جاتی تھی اس کا وزن کئی من ہوتا تھا‘ مجھے یقین نہیں آیا مگر سوار الدین شیدا صاحب مُصر تھے کہ انہوں نے یہ تحریر اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے‘ سوار الدین صاحب کے بغیر رہتاس کی داستان مکمل نہیں ہوتی جو کوئی قلعے کو دیکھنے آتا ہے انہیں بھی ضرور دیکھتا ہے ان کی باتیں توجہ سے سنتا ہے‘ یوں سمجھئے کہ قلعے کی تاریخ کے وہ راوی اور باشندوں کے وہ نمائندے ہیں۔ (نشر پروگرام سے انتخاب)