ہمارے ان ہی صفحات پر شائع ہونے والے کالم اور بعض نامور لکھاریوں و براڈ کاسٹرز کی تحریروں اور نشری مواد سے اقتباسات کو قارئین نے بے حد سراہا‘ ان میں سے بعض کا انتخاب نذرقارئین ہے نوٹ: اس میں موضوعات اور حالات واقعات تحریر یا نشری مواد کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں....
جوانوں وطن عزیز کا ہر شہر اپنے اندر تاریخ سموئے ہوئے ہے اسی کا ذکر معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی بھی اپنی ایک تحریر میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سیدھی سڑکیں ¾سیدھی گلیاں ¾گول چوراہے ¾ گھنٹہ گھر اور آرائشی دروازے۔ مجھے اپنے سفر کے دوران ہوائی جہاز میسر نہ تھا ورنہ اوپر فضا میں جاکر دیکھتا‘ آج کمپیوٹر پر گوگل ارتھ میں دیکھا وزیر آباد ہی نہیں ¾ اگلے پڑاﺅ گوجرانوالہ میں بھی سڑکیں قرینے سے بنی نظر آتی ہیں بس آج کے کمپیوٹرزدہ جوانوں نے اس میں اپنے اور یار دوستوںنے مکانوں اور کاروباروں کی نشاندہی کرکے سارا نقشہ ملیامیٹ کردیا ہے۔گوجرانوالہ کی ایک عجیب خاصیت یہ ہے کہ وہاں جاکر جی خوش ہوتا ہے نہایت صحت مند اور ہنر مند لوگوں کا شہر ہے ‘یہیں ان کاریگروں سے ملاقات ہوئی جنہیں کوئی بھی ولایتی مشین دکھا دیجئے ¾ وہ ہو بہو ویسی ہی مشین بنا دیں گے مجھے وہاں میر عطا محمد صاحب سے ملنا ہمیشہ یاد رہے گا اس وقت اسی برس کے ہو رہے تھے مگر انہیں یہ اسی برس صاف تصویر کی طرح یاد تھے بتا رہے تھے کہ ان کے زمانے میں خاک دھول اڑاتی ہوئی آندھی آتی تھی تو لوگ کہا کرتے تھے کہ کہیں کوئی قتل ہوگیا ہے بعد میں یہ بات سچ نکلتی تھی پھر بولے”اب تو روزانہ کئی قتل ہوتے ہیں۔“آندھی نے تنگ ہو کر آنا ہی چھوڑ دیا۔ایک رات کے لئے میں قریبی گاﺅں سید نگر چلا گیا بڑی پرسکون بستی تھی میں ایک بڑے دالان میںبیٹھا تھا اور گاﺅں کے چھوٹے بڑے میرے گرد حلقہ کئے بیٹھے تھے اس رات فضا اتنی شفاف تھی کہ آسمان کا ایک ایک ستارہ صاف نظر آتا تھا۔میں نے کہا”اوہ ¾ کتنے بہت سے ستارے ایک جگہ جمع ہیں۔“ایک چھوٹی سی لڑکی بولی”وہ کہکشاں ہے۔“شہر والے کیا جانیں قدرت کی ان نفاستوں کو ۔ میری راہ میں جو اگلا شہر آنے والا ہے جس میں کبھی ستر سے زیادہ باغ تھے ¾بارہ دریوں ¾فواروں اور محلوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ وہاں راتوں کو کہکشاں ضرور نظر آتی ہوگی۔ اب تو ٹریفک کا دھواں اور اس میں خاک دھول کی آمیزش نظر آتی ہے اس شہر کا نام ہے لاہور ¾ پشاور سے کلکتے تک راستے میں پڑنے والا یہ واحد شہر ہے جو مسلسل ترقی کر رہا ہے اور ترقی بھی ایسی کہ اس میں خوش ذوقی شامل ہے‘میں نے اعلان کردیا کہ بس اب کچھ اور نہیں دیکھنا۔میرا سفر یہیں تمام ہوا۔ایک اور مقام پر رضا علی عابدی پاک پٹن کے سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دریا شہر سے لگا لگا بہہ رہا ہے مجھے خیال آیا کہ دریا میں خدا نہ کرے بڑی طغیانی آجائے تو پٹن کا کیا حشر ہوگا یہ تو سوکھے پتے کی طرح بہہ جائے گا کسی نے بتایا کہ دریا نے اسے دوچار نہےں بیسیوں مرتبہ روندا ہے لیکن بڑا سخت جان شہر ہے کہ آج بھی موجود ہے کہتے ہےں کہ 1830ءکے عشرے میں ایک بڑا سا گلیشیر ٹو ٹ کر دریائے شیوک میں گرگیا تھا اور اس نے دریا کا راستہ روک دیا تھا چنانچہ اس کے پچھواڑے بہت بڑی جھیل بنتی گئی اور بعد میں کچھ تو گلیشیر اور اس کا دل پگھلا کچھ پانی کے ذخیرے نے دباﺅ ڈالا اور پھر جو پانی کا ریلا آیا تو دریائے سندھ ابل پڑا دریائے سندھ میں بدترین تباہی1841ءمیں آئی تھی پھر 1840ءکے جاڑوں میں ننگا پربت کے دامن کا ایک پورا پہاڑ ٹوٹ کردریا میں آرہا یہ وہ جگہ ہے جہاں استور آکر سندھ میں گرتا ہے پہاڑ گرنے سے دریا میں بڑا سا ڈیم بن گیا اور چھ مہینے کے اندر وادی میں 35 میل لمبی ایک جھیل بن گئی جس کا دوسرا سرا شہر گلگت کو چھونے لگا کچھ عرصے بعد یہ ڈیم ٹوٹا لوگوں کو معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ ہونا ہے چنانچہ وہ پہلے ہی اپنے ڈیرے اٹھا کر اونچے مقامات پر چلے گئے لہٰذا جانی نقصان تو بہت کم ہوا لیکن زمین تباہ ہوگئی اور گاﺅں دیہات بہہ گئے‘ 1885ءمیں بھی دریائے گلگت یا شاید ہنزہ میں ایسا ڈیم بن گیا تھا وہ جب ٹوٹا توتین سو میل نیچے تک دریا صرف ایک دن میں نوے فٹ اونچا ہوگیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ یہ خطرے ختم نہےں ہوئے ہےں ۔(نشرپروگرام سے اقتباس)