شالیمار ایکسپریس‘روہڑی سے ملتان کا سفر

ریل کے دلچسپ اور تاریخی حوالے سمیٹے سفر کی داستان میں معروف براڈ کاسٹر اور صحافی رضا علی عابدی کا کہنا ہے کہ مجھے روہڑی سے ملتان جانا تھا چھ گھنٹے کاسفر تھا اور ایک سو پانچ ڈاؤن شالیمار ایکسپریس بہت آرام دہ تھی میرا ڈبہ ائرکنڈیشنڈ تھا‘باہر کا شور بہت کم تھا ہاں اندر کا شور کچھ کم نہ تھا لوگ باتیں کر رہے تھے بچے کھیل رہے تھے‘غنیمت ہے کہ پور ے ڈبے میں یہاں سے وہاں تک لگے ہوئے ٹیلی ویژن اگرچہ چل رہے تھے مگر خاموش تھے ان کی آواز سننے کیلئے ایک ہونہار سانوجوان مسافروں کو ہیڈفون دے رہا تھا وہ ہیڈفون دیتا جاتا تھا اور لکھتا جاتا تھا کہ مسافر کہاں اترے گا‘ مطلب یہ کہ ہیڈ فون کس اسٹیشن تک چوری ہونے کا کوئی امکان نہیں‘ اس وقت ٹیلی ویژن پر دو موٹے موٹے گورے پہلوان کشتی لڑ رہے تھے  میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ڈھلتی عمر کے سارے مسافر اپنا کام کاج چھوڑ کر ٹیلی ویژن کی کشتی دیکھ رہے تھے اور دانت نکال کر ہنس رہے تھے‘میں نے ٹیلی ویژن کی دیکھ بھال کرنے اور مسافروں کو ہیڈ فون دینے والے نوجوان کو اپنے پاس بلایا اس کا نام ارشاد احمد تھا میں نے کہا اچھا ارشاد یا اچھے ارشاد‘ یہ بتاؤ کہ ٹرین میں سفر کرنے والے لوگ تمہارے ٹیلی ویژن پر کس طرح کے پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ جواب ملا‘ میں نے تو جہاں تک دیکھا ہے سفر میں لوگ تفریحی پروگرام دیکھتے ہیں میں نے ارشاد سے پوچھا کہ انگریزی پروگراموں میں لوگ کس طرح کے موضوعات زیادہ پسند کرتے ہیں؟ ریسلنگ کشتی زیادہ پسند کرتے ہیں اکثر دیکھا ہے کہ زیادہ عمر والے لوگ کشتی دیکھنا بہت پسند کرتے ہیں اور جو نوجوان نسل والے ہیں وہ پاپ گانے پسند کرتے ہیں مگر ادھیڑ عمر والے کہتے ہیں کہ ٹی وی پر ریسلنگ لگنا چاہئے‘ اب میں نے ارشاد سے پوچھا یہ جو ٹیلی ویژن کی آواز سننے کیلئے تم مسافروں کو ہیڈ فون دیتے ہو کیا یہ ہیڈ فون چوری بھی ہوتے ہیں؟ جی‘ بالکل ہوتے ہیں کیوں نہیں ہوتے اور جو چوری ہوتے ہیں ان کے چارجز ہمیں پڑتے ہیں اس کے تیس روپے ہماری تنخواہ سے کاٹ لیتے ہیں حالانکہ تیس روپے کی چیز ہے کوئی اتنی قیمتی بھی نہیں آٹھ سو روپے کا ٹکٹ لیتے ہیں اور صرف تیس روپے کا ہیڈ فون گھر لے جاتے ہیں‘ اس کا نقصان ہمیں اٹھانا پڑتا ہے‘ خیر ادھر یہ ٹیلی ویژن چل رہا تھا کہ ادھر کھانے کا وقت آپہنچا‘ بیروں کی فوج اندر چلی آئی شالیمار ایکسپریس کی نشستیں کبھی ہوائی جہازوں کی نشستوں کی طرح بنائی گئی ہوں گی ہر مسافر کے سامنے والی نشست کپ پشت پر کھانے کی چھوٹی سی میز لگانے کا انتظام کیا کیا ہوگا مگر وہ بری طرح ناکام ہوا اب وہی چھوٹی سی ایک میز نشست کی بنیادوں میں اڑائی جاتی تھی اور دوسری میز کسی طرح اٹکا کر‘ پھنسا کر اسکے اوپر جمائی جاتی تھی تب کہیں اس کے اوپر کھانے کی ٹرے آراستہ کی جاتی تھی بس یوں سمجھئے کہ کھانا آپ کے سامنے نہیں قریب قریب آپ کے قدموں میں رکھا گیا تھا‘اچانک ایک ویٹر پر میری نگاہ گئی جس کا قد کبھی چھ سوا چھ فٹ رہا ہوگا اب وہ یوں جھک ساگیا تھا جیسے اس کی پیٹھ پر اس کی عمر بوجھ کی گٹھڑی  بن کر رہ گئی ہو‘ وہ محمد بشیر تھے اور ریل گاڑیوں میں ترسٹھ سال سے مسافر وں کو کھانا کھلا رہے تھے اس دوران وہ ترقی کرتے کرتے ریل گاڑی کے طعام خانے کے منیجر بھی ہوگئے تھے‘ کوئی بارہ پندرہ سال منیجر رہے مگر جب منیجری ختم ہوئی تو وہ دوبارہ بیرے بن گئے‘ جب انہوں نے بتایا کہ وہ ترسٹھ سال سے مسافروں کو کھانا کھلا رہے ہیں اور میں نے انہیں بتایا کہ ترسٹھ سال پہلے تو میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ پہلے ریل میں کھانا کیسے کھلایا جاتا تھا؟ کہنے لگے گاڑی میں ڈائننگ کار لگی ہوتی تھی مسافروں کو ٹیبل پر سروس کی جاتی تھی‘ اسٹیشنوں پر ریفرشمنٹ روم بھی ہوتے تھے لیکن اب تو یہ بوفے کار ہوگئی ہے وہ ریفرشمنٹ والا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔