ہفتے کے دن حماس نے اسرائیل پر بحری‘ بری اور فضائی حملے کر کے پوری دنیا کو ورطہءحیرت میں ڈال دیا اسرائیل ایک ایسا طاقتور ملک ہے جسکے پاس دو سو سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں اور جو وسیع پیمانے پر جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی فروخت کرتا ہے‘ اسکے مقابلے میں غزہ کی پٹی پر اکیس لاکھ درماندہ حال فلسطینیوں کی نمائندگی کرنے والی عسکری تنظیم حماس کو ایک Ragtag یا گنوار لوگوں کی فوج کہا جاتا ہے‘ اسرائیل نے غزہ کی سینتیس میل لمبی سرحد پر 2021ءمیں ایک بلین ڈالر کی لاگت سے بیس فٹ اونچی ایک ایسی باڑ لگائی تھی جس میں راڈار سسٹم اور زیر زمین سنسر لگے ہوئے ہیں اسکے علاوہ غزہ میں اسرائیلی جاسوسوں کا ایک نیٹ ورک بھی موجود ہے جو یہودی ریاست کو حماس کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتا رہتا ہے ‘ ظالم اور مظلوم کے درمیان اس آہنی حد فاضل کو چند روز پہلے تک ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا مگر اب اسکے چندحصوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی طاقت کے اس استعارے کے بکھر جانے کے بعد مشرق وسطیٰ کی سیاست ایک نئے موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے‘حماس نے تین دن تک اسرائیل کی سرحد کے اندر پندرہ میل تک بائیس مقامات پر حملے کر کے پوری دنیا کو یہ احساس دلا یاہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ کسی بھی ملک کے شہریوں کے قتل عام کی حمایت نہیں کی جاسکتی مگر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی ہر روز قتل ہوتے رہتے ہیں اس قتل و غارت کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب 1967ءکی جنگ میں اسرائیل نے اردن سے ویسٹ بینک بشمول یروشلم اور مصر سے غازہ کی پٹی چھین کر اپنی ریاست میں شامل کر لی تھی‘اسکے بعد سے آج تک اسرائیل فلسطینیوں کےخلاف جنگی جرائم‘ قتل عام اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے مگر مغربی ممالک نے کبھی اسکا ہاتھ نہیں روکا ۔ اب وہ حماس کے اس حملے کے بعد بڑے زور و شور سے انسانی
حقوق اور اخلاقی اقدار کے سبق دے رہے ہیں‘ ورلڈ بینک ہر سال اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ غزہ کی 141مربع میل کی پٹی پر انسانوں کا ایک ایسا جم غفیر آباد ہے جسے پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جسکی بجلی کا تین چوتھائی حصہ اسرائیل سے آتا ہے۔ بجلی کی اس فراہمی کا دورانیہ ایک دن میں چار گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ غزہ میں بیروز گاری کا تناسب اسی فیصد ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ہر سال یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کا بری‘ بحری اور فضائی محاصرہ ختم کردے تو اس علاقے کے لوگ ہر سال دو ارب ڈالرزکا اضافی کاروبار کر سکتے ہیں۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے قطر ہر سال ایک ارب ڈالرز کی امداد دیکر غزہ کی برائے نام معیشت کو سہارا دئیے ہوئے ہے‘اب اس حملے کے بعد اسرائیل کے وزیر دفاع نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کو پانی‘ بجلی اور خوراک کی سپلائی بند کر دی جائیگی۔ ظلم و جبر کی اس انتہا کے باوجود مغربی میڈیا حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کہتے ہوئے نہیں تھکتا مگر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اسے نظر نہیں آ رہی‘ وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ انکا ملک حالت جنگ میں ہے اور وہ اس مرتبہ طاقت کا ایسا مظاہرہ کریں گے جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا اسکے جواب میں حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ہر حملے کے بعد ایک یرغمالی کو ہلاک کیا جائیگا اور اسکی
ویڈیو دکھا دی جائیگی‘نتن یاہو پر ملک کے اندر سخت دباﺅ ہے کہ وہ جلد از جلد یرغمالیوں کو رہا کرائیں‘ اس سے پہلے 2011 میں نتن یاہونے بطور وزیر اعظم ایک اسرائیلی فوجی کے عوض 1027فلسطینی قیدی رہا کئے تھے ان میں 280ایسے تھے جو عمر قید کی سزا بھگت رہے تھے‘ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر امریکی صحافی ٹام فریڈ مین نے نو اکتوبر کے کالم میں لکھا ہے کہ اب نتن یاہو کو شاید وہ تمام جیلیں خالی کرنا پڑیں گی جن میں فلسطینی قید ہیں تا کہ غازہ سے اسرائیل کے بوڑھے شہریوں اور بچوں کو رہا کرایا جا سکے۔ٹام فریڈ مین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اب نتن یاہو غازہ کے فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک بھی کرے اسے اپنے یرغمالی شہریوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم اگر اس نئی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے تو اسکی کمزور اتحادی حکومت کو غازہ میں اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کا ذمہ دار سمجھا جائیگا۔ اسکی سیاسی قیمت نتن یاہو کو بہر حال ادا کرنا ہوگی۔ حماس شاید اپنے ہزاروں قیدی رہا کرانے میں کامیاب ہو جائے البتہ عرب حکمرانوں کےلئے اب اسرائیل سے کچھ عرصے تک دوستی کی پینگیں بڑھانا ممکن نہیں ہو گاکیونکہ مغربی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے سخت رد عمل کی صورت میں عرب عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہو گا۔اب اسرائیل سے دوستی کی شاہراہ پر ہر عرب ملک کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے۔ صدر بائیڈن نے سعودی عرب کیساتھ دفاعی معاہدہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کرانے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ بھی اب تاخیر کا شکار ہو گا۔حماس کی اس کامیابی کے باوجود غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو نہ جانے کب تک اسرائیل کے جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑیگا۔مگر انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ طاقت کی حدود ہوتی ہیں اور مظلوم کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ طاقتور دشمن کے غرور کو خاک میں ملا سکتا ہے۔