غزہ میں امریکہ کی مشکلات

نازو نعم میں پلا ہوا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتا ہے۔ وہ جو بھی کرے اسے کبھی اسکی کوئی قیمت ادا نہیںکرنا پڑے گی۔ وہ مظلوم فلسطینیوں کو گرفتار کرکے بغیر مقدمے چلائے عشروں تک جیلوں میں رکھ سکتا ہے۔وہ انکے گھروں میں گھس کر انہیں گرفتار کرنے کے علاوہ قتل بھی کر سکتا ہے۔ وہ ان سے انکی زمینیں چھین کر نو آباد کاروں کے حوالے بھی کر سکتا ہے۔وہ بلا خوف و خطر نسل کشی کا گھناﺅنا کھیل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس نے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے 765 ملین ڈالرز کی لاگت سے غزہ کی سرحد پر ایسی دیوار کھڑی کی جس میں سینکڑوں کیمرے ‘ سنسرز اور خود کاراسلحہ لگا ہو اتھا۔ اسے گھمنڈ تھا کہ اسکی طاقتور خفیہ ایجنسیاں موساد اور Shin Bet دشمن کے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں اور وہ اسکے ٹھکانوں کو کسی بھی وقت تباہ کر سکتی ہیں۔مگر پھر ہوا یہ کہ ایک دن طاقت کے نشے میں سرشار اس عفریت کا مضبوط اور جدید ترین حصار ایک پرانے اور دھواں اگلتے بلڈوزر نے زمین بوس کر دیا۔ اس روز دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ سرحد پار سے دو چار سو سر بکف نوجوان موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر آئے اور دو دن تک بائیس مقامات پر حملے کرنے کے بعد تیرہ سو افراد کو ہلاک اور ڈیڑھ سوکو یرغمال بنا کر لے گئے۔اسرائیل کا خیال تھا کہ ویسٹ بینک اور غزہ کے ساڑھے پانچ ملین لوگوں کو ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھنے کے با وجودوہ اپنے عرب ہمسایوں کو دوست بنا لے گا اور ان سے تجارت کر کے خوب مال کمائے گا۔اسے یقین تھا کہ دنیا بہت جلد یہ بھول جائیگی کہ اس خطے میں فلسطین نام کا بھی کوئی علاقہ تھا یہ خیال اسے کبھی چھو کر بھی نہ گذرا تھا کہ 75 برسوں تک غلام رہنے والے لوگ صرف دو دن کے لئے آزادی حاصل کر لیں گے اور پھر ان دو دنوں کے بعد دنیا سارے عالمی مسائل بھلا کر فلسطین کی طرف متوجہ ہو جائیگی۔ ڈیڑھ سال سے جاری یوکرین کی جنگ یوں مغربی میڈیا سے غائب ہو جائیگی جیسے ہاتھی کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔اس خفت کو مٹانے کے لئے اسرائیل نے طوعاً کرہاً اس پہاڑ کو ایک مرتبہ پھر فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا جہاں سے وہ دو مرتبہ پہلے بھی ناکام لوٹا تھا۔ غزہ سے مسلسل کئی برسوں تک نبرد آزما رہنے کے بعد اس نے بالآخر2006 میں اسے اسکے حال پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ جاتے وقت اس نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ اس پنجرے کے دروازے مقفل رکھے گا اور اس میں دوبارہ داخل نہیں ہو گا۔ اس پچیس میل لمبی اور سات میل چوڑی جیل کے ایک طرف بحیرہ روم ہے کہ جہاں اسرائیل کی بحریہ پہرہ دیتی ہے اور دوسری طرف اسکے جنوبی حصے میں رفاح کی سرحد ہے جسے مصر نے اسرائیل کیساتھ ملکر بند کیا ہوا ہے۔ اس خدمت کے صلے میں قاہرہ کو ہر سال امریکہ سے سوا بلین ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد ملتی ہے۔دنیا کی اس سب سے بڑی جیل میں جب قیدیوں کا دم گھٹنے لگتا ہے تو وہ باہر نکل آتے ہیں۔ پانی ‘ بجلی‘ گیس اور خوراک کی قلت کی دہائی دیتے ہیں۔ اس قبیلے کے جنگجو کبھی کبھار سرحد کے اس پار میزائل بھی داغ دیتے ہیں۔ حماس کے جانبازوں نے 2014ءمیں جب ہزاروں میزائل Iron Dome کے دفاعی حصار پر داغے تو ان میں سے دو چار سو یہودی بستیوں پر جا گرے۔ ان حملوں کا جواب دینے کے لئے اسرائیل نے کئی روز تک فضائی حملے بھی کئے اور حماس کے خلاف زمینی جنگ کا اعلان بھی کیامگر اسے معلوم تھا کہ غزہ کی سر زمین سرنگوں سے اٹی پڑی ہے‘امریکہ نے جنگی طیاروں اور میزائلوں سے لیس دو بڑے بحری بیڑے بحیرہ روم میں بھجوا دیئے ہیں مگر وہ درون خانہ اپنے لاڈلے کو سمجھا رہا ہے کہ زیر زمین تہہ خانوں کی اس بستی میں داخل ہونا تو آسان ہے مگر لوٹنا بہت مشکل ہے۔ چند امریکی دانشور اپنے دوست کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ 2004 میں ان کے ملک نے فلوجا اور رمادی میں زمینی جنگ لڑی تھی مگر عراقی انکے سامنے ڈٹ گئے تھے اور وہ تصادم انہیںبہت مہنگا پڑا تھا۔ امریکی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ انکا ملک اسوقت بری طرح یوکرین جنگ میں الجھا ہوا ہے ‘ یورپ بھی اس جنگ سے بیزار آ چکا ہے اور ری پبلکن پارٹی بھی اب اس دلدل میں مزید اسلحہ اور ڈالر نہیں جھونکنا چاہتی اس لئے بہتر یہی ہے کہ غزہ کی جنگ کو طول نہ دیا جائے ‘ایسے میں اگر چین نے تائیوان کا محاذ کھو ل دیا تو امریکہ تین محاذوں پر کیسے لڑے گا۔ مگر لگتا ہے کہ نازو نعم میں پلا ہوا لاڈلا اب ناقابل اصلاح ہو چکا ہے اسے اپنے سرپرست کی مجبوریوں کا ذرہ بھربھی احساس نہیں اسے یقین ہے کہ وہ جو بھی کرے گا اسے اسکی قیمت ادا نہیں کرنا پڑیگی امریکہ نے جس طرح اسکے کہنے پر عراق پر حملہ کردیا تھا اسی طرح اس مرتبہ بھی وہ اپنے چہیتے کی خاطر ایک نئی جنگ میں کود پڑیگا۔ لگتا ہے کہ امریکہ پھر اسرائیل کے جال میں پھنس گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یوکرین سے بیزار ہونی کے بعد امریکی عوام کب تک مشرق وسطیٰ کی اس جنگ کو جاری رکھ سکے گی۔