بالآخر وہ سٹیشن آہی گیاجسکا انتظار تھا

معروف براڈ کاسٹر اور صحافی رضا علی عابدی اپنے ریل سفر کی داستان میں آگے چل کر بتاتے ہیں جو اس وقت کے ہیں جب انہوں نے سفر کیا۔ بہت سے مسافروں کے ساتھ میں بھی پلیٹ فارم پر اتر گیا ‘ یہاں کچھ نوجوان ملے میں ہر ایک سے پوچھ رہا تھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں؟ اور ہر ایک اگلے اسٹیشن کا نام بتارہا تھا وہ اسٹیشن جسے دیکھنے کا میں خدا جانے کیوں بہت مشتاق تھا” آب گم کا اسٹیشن“ یہ مچھ کا ریلوے اسٹیشن بہت دلچسپ ہے یہ ریلوے لائن کے کنارے نہیں ہے بلکہ ذرا ہٹ کر ہے پلیٹ فارم پر لگنے کیلئے ریل گاڑی اصل گاڑی کو چھوڑ کر پہلو میں پڑی ہوئی دوسری لائن پر چلی جاتی ہے اور اونچائی پر چڑھتی ہے تب مچھ کا اسٹیشن آتا ہے پھر وہاں سے فراغت پا کر ٹرین آگے نہیں جاتی بلکہ پیچھے اترتی ہے پیچھے لوٹ کر یہ دوبارہ اصل پٹڑی پر آتی ہے اور ایک بار پھر آگے روانہ ہوتی ہے تب کہیں جاکر مسافروں کو کھانا کھلانے والے بیرے جھوٹے برتن اور سچی رقم لے کر گاڑی سے اترتے ہیں۔ مچھ کے اسٹیشن پر کھانا کھانے کی روایت بہت پرانی ہے پرانے زمانے میں یہاں طعام خانہ یاریفرشمنٹ روم ہوا کرتاتھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب کھانا چلتی گاڑیوں میں نہیں ملتا تھا بلکہ کھانے کے وقت گاڑی اسٹشن پر روک دی جاتی تھی اور مسافر اتر کر ریفرشمنٹ روم میں کھانا کھایا کرتے تھے‘ مچھ میں ایک بڑا انجن شیڈ بھی ہوا کرتا تھا31مئی1935 ءکے زلزلے کا مرکز یہیں تھا اس زلزلے نے بڑی تباہی مچائی البتہ ایک کرامت بھی دکھائی کہتے ہیں کہ زلزلے نے ریلوے لائنوں کو نقصان نہیں پہنچایا ‘مچھ سے ذرا پہلے اس راستے کا پہلا پل ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ زلزلے کی وجہ سے پل بارہ انچ چھوٹا ہوگیا لیکن بالکل سالم رہا اور اس پر گاڑیاں چلنے لگیں‘ اسی علاقے میں ہر ایک کا مشہور ریسٹ ہاﺅس تھا جس میں انگور لگتے تھے اور ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ تھا مچھ کے زلزلے میں اس چشمے سے پانی بہنا بند ہوگیا‘ مچھ میں جہاں ہر طرف کوئلے کے انبار نظر آرہے تھے وہیں کچے پکے مکان بھی دکھائی دے رہے تھے عورتیں باورچی خانوں میں کھانا پکاتیں اور بچے کھانے کے انتظار میں کھیلتے نظر آرہے تھے گھروں سے بہہ کر باہر آنے والے پانی کے کنارے بیلیں اگ آئی تھیں جو پتھریلی دیواروں پر چڑھا دی گئی تھیں‘ مچھ سے پہلے ویرانے تھے ان ویرانوں میں اگر کوئی انسان نظر آتے تھے تو وہ ریلوے کے تھکے ماندے مستری اور کاریگر تھے جو خدا جانے کیسے وہاں اجاڑ علاقوں میں پہنچ کر ریلوے لائن کو ٹھیک ٹھاک کرنے میں مصروف تھے‘ مچھ کے بعد چھوٹے چھوٹے گاﺅں آنے لگے جن کے مکانوں کی دیواریں ریتلی مٹی سے لپی ہوئی تھیں کچھ دور پہاڑ تھے یوں لگتا تھا کہ ان پر بھی بالکل مکانوں والی مٹی پوتی گئی ہے‘ باورچی خانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا بچے ایک دوسرے کو پکڑنے کا کھیل کھیل رہے تھے ہر بستی کے باہر اس کا قبرستان تھا ساری سوکھی سوکھی سی قبروں کے اوپر خشک پتھر چنے گئے تھے اور عجیب بات یہ کہ وہ جو ریل گاڑی کے راستے میں پڑنے والی دیواروں پر حکیموں اور شفاخانوں کے بڑے بڑے اشتہار لکھے جاتے تھے اس راستے کی دیواریں ان سے محفوظ تھیں لہٰذا نہ کسی دیوار میں کجی نظر آرہی تھی نہ لاغری‘ یوں لگتا ہے کہ جب کبھی کوئی پینٹر ان بلوچی دیہات کی دیواروں پر اشتہار لکھنے آتا ہوگا بستی والے اسے مار بھگاتے ہونگے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پینٹر نے راہ میں پڑنے والی بڑی بڑی چٹانوں پر ہاتھ صاف کیا اتنے میں آب گم آگیا‘ وہی چھوٹا سا اسٹیشن‘ وہی انگریزوں کے زمانے کی عمارت‘ وہی پرانے درخت‘ سامنے کچھ اونچی چوٹیاں‘ ڈھلانوں پر آباد بستیاں‘ کچھ کوئلے کے انبار اور ایک بے کارپڑا ہوا پرانا ٹین کی چادروں کا بیت الخلا‘ آدھا مردانہ اس پر ایک مرد کے چہرے کی تصویر اور آدھا زنانہ‘ اس پر ایک عورت کے چہرے کی تصویر‘ غالباً ان لوگوں کی سہولت کے لئے جو پڑھ نہیں سکتے‘ میں ٹرین سے نیچے اتر گیا پچھلے اسٹیشن پر ملنے والے سارے مسافر بھی وہاں آگئے ان میں بہت سے آب گم کے باشندے تھے۔(نشر پروگرام سے اقتباس)