معروف براڈکاسٹر رضا علی عابدی سفر کی داستان میں تاریخ کے ایسے حوالے دے دیتے ہیں کہ جو پڑھنے والے کیلئے معلومات کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں ایک دلچسپ سفرنامے کے حال میں بتاتے ہیں کہ فورٹ سنڈیمن کی ریلوے لائن کا قصہ بھی سنتے چلئے کوئٹہ کے شمال میں بوستان سے ژوب تک تقریباً296 کلومیٹر لمبی یہ لائن صحیح سلامت ہوتی تو ریلوے کے عجائبات عالم میں شمار ہوتی دنیا میں ڈھائی فٹ چوڑی یہ سب سے لمبی لائن تھی‘ اس کے راستے میں کان مہترزئی کا اسٹیشن آتا تھا جو سمندر کی سطح سے7221 فٹ(تقریباً2220 میٹر) اونچائی پر ہے اور یہ نارتھ ویسٹرن ریلوے کا سب سے اونچا اسٹیشن تھابرصغیر کی تقسم سے پہلے499 اپ سہ پہر کو بوستان سے چلتی تھی اور رات بھر پہاڑوں‘ دریاﺅں اوروادیوں کا سفر طے کرکے اگلی دوپہر سے ذرا پہلے فورٹ سنڈیمن پہنچتی تھی پھر وہاں سے500ڈاﺅن شام پانچ بجے کے ذرا بعد روانہ ہوتی اور اگلی دوپہر بوستان پہنچتی‘ کبھی کبھی برفانی طوفان آجاتے تو گاڑی راستے میں پھنس جاتی اور ٹرین کا سارا پانی جم جاتا جاڑوں میں ڈبے گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں
تھا‘ صرف ریلوے کے افسر اپنے ڈبوں میں تیل کے چولہے جلاتے تھے‘ 1970ءمیں اس لائن پر اتنی زیادہ برف گری کہ اس کی مثال نہیں ملتی اس وقت بوستان اور ژوب کے درمیان ہفتے میں صرف ایک مسافر گاڑی چلا کرتی تھی برف باری کے دوران ایک ٹرین چلی جارہی تھی جو کان مہترزئی کے قریب برف میں دھنس گئی ڈرائیور اور فائرمین نے لاکھ چاہا کہ گاڑی کو نکال لے جائیں مگر بے سود‘ آخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے اور مدد کا انتظار کرنے لگے اب تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسٹیشن ماسٹروں نے تار بھیجنے کےلئے اپنے قدیم آلات پر کس طرح جھنجھلا کر اپنے سرپٹخے ہونگے یہ تو معلوم نہیں کہ امداد کا پیغام کوئٹہ یا چمن پہنچ سکا یا نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ امداد نہ پہنچ سکی برف میں دھنسی ہوئی ٹرین وہیں کھڑی رہی مسافر نکل کر کسی طرح سڑک تک پہنچے اور جیسے بھی بنا‘ ادھر ادھر چلے گئے سنا ہے کہ بوستان سے ایک امدادی انجن چلا تھا وہ بھی کہیں برف میں دھنس کر رہ گیا کہتے ہیں کہ یہ ریلوے لائن کئی روز بعد کھلی۔ پھر یہ ہواکہ ماہ مئی1985ءمیں ہفتہ وار گاڑی ژوب سے بوستان پہنچی اسے دھویا گیا اور سنوارا گیا کیونکہ اگلے ہفتے اسے واپس جانا تھا مگر وہ اگلا ہفتہ پھر کبھی نہیں آیا بظاہر یہ چھوٹی سی مگر انجینئرنگ کی یہ شاہکار ریلوے لائن اجڑ کر رہ گئی یایوں کہئے کہ اسے اجڑنے کیلئے چھوڑ دیا گیا اس کے بعد یہ ہوا کہ چھ سال سال تک ریلوے ٹائم ٹیبل میں اس گاڑی کے اوقات شائع ہوتے رہے اس کے بعد اس کی اتنی بھی اوقاف نہیں رہی‘ یہ لائن ہندو باغ سے معدنیات لانے کیلئے ڈالی گئی تھی بعد میں کسی کو اس سے دلچسپی نہیں رہی ‘غالباً اسے ٹھیک ٹھاک رکھنے پر بھاری خرچ آنے لگا فالتو پرزے ملنے بند ہوگئے لہٰذا اس پوری لائن کو زنگ کھانے کیلئے چھوڑ دیاگیا اس کے پل گر چکے ہیں
پٹڑیوں کے نیچے سے مٹی بہہ گئی اور خود پٹڑیاں نشیبوں میں جھول رہی ہیں ہاں تو میری 23 ڈاﺅن جیکب آباد سے روانہ ہوگئی‘ اسٹیشن کی عمارت سرکتے سرکتے پیچھے نکل گئی ایک گھنٹہ بھی نہیں لگا کہ ہم شکار پور پہنچ گئے ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان اور وسطی ایشیا جانےوالی پرانی سڑک یہیں سے گزرتی تھی چین کا صوبہ سنکیانگ شکارپور تاجروں سے بھرا رہتا تھا اٹھارہویں صدی کے خاتمے تک یہ سندھ کا سب سے بڑا کاروباری مرکز تھا اس زمانے کے ایک نقشے میں جس جگہ اب پاکستان ہے وہاں صرف دو شہر دکھائے گئے ہیں لاہور اور شکارپور۔ اب تو شکار پور اپنی مٹھائی اور اچار کی وجہ سے مشہور ہے اس رات جوں ہی ہماری گاڑی شکارپور کے پلیٹ فارم پر لگی اس پر ٹین کے بھاری کنستر چڑھائے جانے لگے میں نے کسی سے پوچھا کہ کیا ان میں مٹی کا تیل ہے؟ جواب ملا کہ جی نہیں ان میں شکارپور کا اچار بھرا ہوا ہے میں پورا پلیٹ فارم نہیں دیکھ سکا ورنہ مجھے یقین ہے کہ کہیں مٹھائی کے بکس بھی چڑھائے جارہے ہوں خصوصاً لوکی کے سبز حلوے کے ڈبے۔(نشرپروگرام سے اقتباس)