حملے میںتاخیرکی وجوہات

اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکا اندازہ اس خطے سے باہر رہنے والے نہیں لگا سکتے‘یمن سے لیکر اسرائیل‘ لبنان اور ایران تک ہر روز اتنے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ کسی کےلئے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس خطے میں بھڑکنے والے جنگ کے شعلے بجھائے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ اسوقت دنیا بھر میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے امکانات پر بات چیت ہو رہی ہے اسرائیل حماس جنگ کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل سوال یہی ہے کہ غزہ پر اسرائیل نے ابھی تک حملہ کیوں نہیں کیا‘ کیا تل ابیب کے حکمران گھبرا گئے ہیں ‘ کیا وہ غزہ کی سرنگوں میں چھپے ہوئے سر بکف جنگجوﺅں سے دست بدست جنگ لڑنا نہیںچاہتے حالات و واقعات یہی بتا رہے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں اسرائیل کے پاس اتنے ڈرون طیارے‘ راکٹ لانچراور سٹنگر میزائل ہیں کہ وہ گھروں میں داخل ہوئے بغیر ہی یہ گوریلا جنگ لڑ سکتا ہے‘ امریکہ نے اربن وار فیئر یا شہری جنگ کے جو تجربات عراق میں کئے تھے انکے سبق اس نے اپنے اتحادی کو سکھا دئیے ہیںاور اسے یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ ایک طویل جنگ ہو گی اور اسکے بعد جو راستہ آئیگا وہ زیادہ کٹھن اور دشوار گذار ہو گا۔ نظر یہی آ رہا ہے کہ اسرائیل کی فوجی اور سیاسی قیادت حماس کی مکمل تباہی کےلئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ انکا کہنا ہے کہ وہ سات اکتوبر والا دن دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے اس لئے دشمن کا مکمل صفایا ضروری ہے صدر بائیڈن کے مشاہیر تل ابیب کے وار روم میں اسرائیلی جنگبازوں کو تحمل اور برداشت سے کام لینے کا مشورہ دے رہے ہیں گذشتہ ہفتے اسرائیل میں بنجامن نتن یاہو کی کابینہ سے بات چیت کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ نے نائن الیون کے جواب میں جو شدید رد عمل دیا وہ غیر ضروری تھا اور انکے ملک کو اسکے نتیجے میں بڑے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ انکے مشوروں کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملہ کرنے میں جو تاخیر کی ہے اسکی وجہ سے حماس نے ایک خاتون اور اسکی بیٹی کو رہا کر دیا ہے۔ یہ دونوں امریکہ اور اسرائیل کی دہری شہریت رکھتی ہیں۔اسکے بعد اسرائیل نے رفاح کی سرحد کھول کر امدادی سامان لانے والے ٹرکوں کو غزہ کے جنوبی علاقے میں داخل ہونیکی اجازت دےدی پیر کے دن حماس نے مزید دو اسرائیلی خواتین کو رہا کر دیا بعض اطلاعات کے مطابق قطر کی سفارتی کوششوں کی بدولت حماس کو تمام یرغمالی خواتین اور بچوں کی رہائی پر آمادہ کیا جا سکتا ہے اس وقت حماس کے قبضے میں دو سو سے زیادہ یرغمالی ہیں جن میں عورتوں اور بچوں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے قطر کو طویل عرصہ سے غزہ کے معاملات میں کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ حماس کو ایک بلین ڈالر سالانہ کی مالی امداد دیتاہے‘ اسرائیل نے اسکی اجازت اسلئے دے رکھی ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل کے قیدیوں کے اخراجات برداشت نہیں کرنا چاہتا۔اس اجازت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل یہ بھی نہیں چاہتا کہ محمود عباس کی فلسطین اتھارٹی ویسٹ بینک کے علاوہ غزہ کی قیادت بھی سنبھال لے اورپھر ان دونوں علاقوں میں رہنے والے فلسطینی متحد ہو کر اسکے سامنے آ کھڑے ہوں۔ تل ابیب نے بہ امر مجبوری 2007میںغزہ کو حماس کے حوالے کردیاتھامگر اب یہ عسکری تنظیم اس کےلئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے صدر بائیڈن نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کی حکمران جماعت سے پوچھا تھا کہ وہ اگر حماس کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو کیا وہ خود غزہ کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ اسرائیلی حکمران کیونکہ پہلے بھی اس کوشش میں بری طرح ناکام رہے تھے اسلئے انکا جواب نفی میں تھاوہ اس سوال کا جواب بھی نہیں دے سکتے کہ حماس کے بعد غزہ کا مستقبل کیا ہو گا۔ اسرائیل کو غزہ پر زمینی حملے سے روکنے کی ایک وجہ امریکہ کا تزویراتی حساب کتاب بھی ہے اسرائیل کے ارد گرد اتنے محاذ کھلے ہوئے ہیں کہ امریکہ کو یہ نظر آ رہا ہے کہ اگر غزہ کی جنگ طویل ہوتی ہے تو پھر اسے جلد یا بدیر اس میں اسرائیل کی مدد کےلئے اترنا پڑیگا تل ابیب کی ڈیفنس فورسز کی ایک بڑی تعداد ویسٹ بینک میں پانچ سو چیک پوسٹوں پر فلسطینیوں کی نگرانی کرنے کے علاوہ اسی علاقے میں ہزاروں نو آباد کاروں کی حفاظت بھی کر رہی ہے۔ دوسری طرف غزہ کے محاذ پر اسرائیل کے تین لاکھ ساٹھ ہزار تربیت یافتہ ریزرو شہری زمینی حملے کےلئے تیار کھڑے ہیں۔ لبنان کی سرحد پر اسرائیل اور حزب اللہ کی جھڑپوں میں ہر گذرتے دن کیساتھ تیزی آ رہی ہے۔ صدر بائیڈن کے بعض مشاہیر دبے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل اگر حزب اللہ کے میزائل حملوں سے تنگ آ گیا تو وہ اس ملیشیا فورس کے سرپرست ایران پر براہ راست حملہ کر سکتا ہے۔ ایسے ممکنہ حملے کے بعد چین اور روس کیا کرتے ہیں اسکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔