ایک اور ریلوے سٹیشن

معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کی ایک ریلوے سٹیشن کی تاریخ اپنے منفرد اسلوب کیساتھ بیان کرتے ہیں کہ میں نے روہڑی اسٹیشن کے سپرنٹنڈنٹ عرفان حسین فاروقی صاحب کو جو میرے دوست بن چکے تھے ٹیلی فون کیا اور پوچھا کہ کیا آپ کے علاقے میں رک نام کاکوئی اسٹیشن ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہ صرف ہے بلکہ نہایت دلکش ہے اوردیکھنے کی جا ہے۔ اب جو میں کراچی پہنچا تو ریلوے کے اپنے ایک دوست‘ اعلیٰ انجینئر یعقوب علی زرداری صاحب سے کہا کہ سکھر کے قریب کوئی اسٹیشن ہے رک‘ کیا وہاں جاکر اسے دیکھنا ممکن ہے؟ میرا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے ٹیلی فون اٹھایا اور سکھر کے ریلوے کے اعلیٰ انجینئر جلال الدین ابڑو صاحب سے بزبان سندھی گفتگو کرنے کے بعد مجھ سے کہا لیجئے مبارک ہو ابڑو صاحب خود رک کے باشندے ہیں اور انہوں نے آپ کو رک لے جانے کے سارے انتظامات مکمل کرلئے ہیں۔ اگلے ہی روز پی آئی اے کا پنکھوں سے چلنے والا چھوٹا سا فوکر طیارہ سکھر کی جانب پرواز کر رہا تھا اور اسکے سارے مسافروں میں اگر کوئی مضطرب تھا تو میں‘ میری چشم تصور ایک تاریخی ریلوے اسٹیشن کی سو طرح کی تصویریں بنارہی تھی مٹا رہی تھی کہ دریا کے چوڑے پاٹ پر اپنا سایہ ڈالتا ہوا طیارہ نہروں کے اوپر اڑتا ہوا سکھر کی سرزمین پر اتر گیا جلال الدین ابڑو صاحب وہیں میرے منتظر تھے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے پہلے سکھر چلیں گے یا رک؟ میں نے زبان اردو کی تاریخ کا مختصر ترین جواب دیا رک۔ہماری جیپ سکھر بیراج سے نکلنے والی تین متوازی نہروں کے کنارے ایک پشتے کے اوپر بنی ہوئی پکی سڑک پر دوڑنے لگی ابڑو صاحب چونکہ ریلوے کے انجینئر اور اس علاقے کے باشندے ہیں مجھے بتانے لگے جس پشتے پر ہماری یہ سڑک بنی ہوئی ہے اس کے اوپر کبھی سکھر کو رک سے ملانے والی ریلوے لائن بچھی ہوئی تھی یہ دیکھئے پٹڑی کے پتھر ابھی تک پڑے ہوئے ہیں اور یہ جو گاﺅں ہے اس کا ریلوے اسٹیشن یہاں تھا اور وہ جو احاطہ ہے وہ دراصل چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن تھا یہاں لائن رک کی طرف مڑ جاتی تھی اور پھر یہی لائن داد و ہوتی ہوئی کوٹری اور کراچی چلی جاتی تھی اس لائن سے الگ ہو کر ایک شاخ سبی اور کوئٹہ جاتی تھی اس وقت اس کا نام تھا قندہار اسٹیٹ ریلوے یا کے ایس آر‘ اور دیکھئے سامنے وہ رہا رک کا اسٹیشن جس کی پیشانی پر آج تک لکھا ہوا ہے کے ایس آر‘ قندہار اسٹیٹ ریلوے۔ دور دور تک دھان کے کھیت تھے جوہڑ اور تالاب تھے درخت تھے‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تھیں‘ چھوٹے بڑے گاﺅں تھے اور زمین سے پھٹے پڑنے والے سبزے کے درمیان ایک بڑی عمارت کھڑی تھی اونچے اونچے در‘ بڑی بڑی محرابیں‘ ستون‘برآمدے ‘دریچے عمارت کے اوپر تاج نما پیشانی جس پر کبھی بڑا سا آہنی گھنٹہ آویزاں ہوگا اور وہ کل جسے کھینچ کر راتوں کو گیس کابڑا سا ہنڈا اونچا کیا جاتا ہوگا تو سارا علاقہ منور ہو جاتا ہوگا اس کے علاوہ ٹکٹ گھر‘ انتظار گاہ درجہ اول ‘ انتظار گاہ درجہ دوئم ‘ پینے کے پانی کا ذخیرہ‘ لیمپ روم‘ اسٹیشن ماسٹر کا دفتر اس میں کٹ کٹ کرتا ہوا پیغام رسائی کا آلہ‘ پانچ پانچ سو میٹر لمبے پلیٹ فارم ‘ ان پر نیم دائرے کی شکل میں بنے ہوئے لوہے اور ٹین کے سائبان‘ پانی کے ذخیرے کا بہت اونچا ٹینک ریلوے لائن پار کرنے کیلئے لوہے اور ٹین کے سائبان‘ پانی کے ذخیرے کا بہت اونچا ٹینک‘ ریلوے لائن پار کرنے کیلئے لوہے کا پل(جو آج تک صحیح و سالم ہے کیونکہ اس کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی) دونوں جانب سگنل کے بڑے کیبن‘ گاڑیوں میں تازہ پانی بھرنے کیلئے اونٹ کی گردن جیسی بڑی بڑی ٹونٹیاں‘ کمروں کے اندر خوش نما فرش اور خدا جانے کیا کیا‘ یہ تھا رک کا اسٹیشن۔ بڑے در کی پیشانی پر ابھی تک نہ صرف قندہار اسٹیٹ ریلوے اور انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوے کے نام لکھے تھے بلکہ عمارت کی تعمیر کا سال1898ءبھی درج تھا میں اضطراب کے عالم میں ایک ایک دیوار دیکھ رہا تھا مجھے یقین تھا کہ کسی دیوار پر وہ تختی ضرور نصب ہوگی جس پر اس عمارت کی کچھ اور تفصیل درج ہوگی اسٹیشن کے ملازموں نے کہا کہ انہوںنے کبھی کوئی تختی نہیں دیکھی مگر میں نے ٹکٹ گھر کے ہال میں ایک بیضوی تختی کا نشان ڈھونڈلیا اور بے تاب ہو کر پوچھا یہاں کیا تھا؟ تب علاقے کے بوڑھے باشندوں نے بتایا کہ یہاں ایک تختی لگی ہوئی تھی ایک بار کوئی افسر آئے اور نکلوا کرلے گئے۔