گذشتہ تین ہفتوں میں غزہ پر اسرائیل کے سات ہزار فضائی حملوں میں آٹھ ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیںہر روز آسمان سے برسنے والی آتش و آہن میں محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرنےوالے لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ وہ اگر ملبے کے ڈھیر میں دفن نہ ہوئے تو بھوک اور پیاس سے مر جائیں گے ان بائیس لاکھ محصور لوگوںپر بجلی ‘ پانی اور خوراک کی ترسیل انہی دنوں میں بند کر دی گئی تھی جب حماس کے جنگجوﺅں نے ایک ناقابل تسخیر سمجھی جانےوالی آہنی دیوار عبور کر کے چودہ سو یہودی ہلاک کر دیئے تھے سات اکتوبر کے دن طاقت اور تکبر کے نشے میں چور ایک دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا گیا تھااب وہ اپنی ہزیمت کا انتقام لینے پر تلا ہواہے‘ وہ دنیا کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ وہ اب بھی اس خطے کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے‘ اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کی تین سو میل طویل سرنگوں کے نیٹ ورک میں داخل ہو کر حماس کے جنگجوﺅں کو چن چن کر ہلاک کر دیگا‘اکیس روز تک مسلسل فضائی حملے کرنے کے بعد اب اسکے ٹینکوں نے سرنگوں کے اس جال کی طرف بڑھنا شروع کیا ہے‘امریکہ ایک طرف بڑھ چڑھ کر اسکی پشت پناہی کر رہا ہے تو دوسری طرف اسے ہوشیار رہنے کے مشورے بھی دے رہا ہے‘ اس وقت امریکی جرنیلوں کی ایک ٹیم تل ابیب میں موجود ہے جو بڑی عرق ریزی سے اپنے اسرائیلی دوستوں کو اربن وار فیئر کے گر سکھا رہی ہے‘ سیکرٹری آف ڈیفنس لائیڈ آسٹن
2016ءاور 2017ءمیں امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ تھے ان دنوں عراقی فوج اور کرد ملیشیا موصل میں ISIS سے برسرپیکار تھے‘ امریکہ نے ISIS (داعش) کےخلاف براہ راست میدان جنگ میں اترنے کے بجائے عراقی فوج کو موصل آزاد کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی لائیڈ آسٹن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو بتایا کہ داعش کے جنگبازوں نے گلیوں اور بازاروں کے نیچے سرنگیں بنائی ہوئی تھیں‘ یہ جنگ نو ماہ تک جاری رہی تھی ‘ اس میں گیارہ ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے تھے اور عراقی فوج نے بھی بھاری جانی نقصان اٹھایا تھاامریکی اخبار کے مطابق موصل کی جنگ کا سبق یہ تھا کہ اربن وار فیئر میں ایک طویل عرصے تک شہری آبادیوں میں دشمن سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے اس میں اکثر دست بدست جنگ کے مراحل بھی آتے ہیں‘ اخبار نے لکھا ہے کہ پنٹا گون اسرائیل کی جنگی کابینہ کو غزہ پر حملے سے پہلے زیادہ سے زیادہ انٹیلی جنس جمع کرنے کے علاوہ محدودسرجیکل آپریشن کرنے کا
مشورہ دے رہا ہے لیکن اسرائیل جلد از جلد حماس کیساتھ حساب برابر کرنا چاہتا ہے‘ صدر بائیڈن نے اسرائیل کا دورہ کر کے اور وہاں جانے سے پہلے دو جنگی بیڑے بھجوا کر اسرائیل کےلئے اپنی غیر مشروط حمایت کے ثبوت مہیا کر دیئے ہیں‘لبنان کی سرحد پر اسرائیل حزب اللہ سے الجھا ہوا ہے‘اس محاذ پر جھڑپیںجاری ہیں مگر اس جنگ کے پھیلنے کے امکانات اسلئے نہیں ہیں کہ اسرائیل نے بیروت کو ملبے کا ڈھیر بنانے کی دھمکی دی ہوئی ہے اسلئے حزب اللہ نے حماس کی مدد کےلئے ایک نیا محاذ کھول تو دیا ہے مگر وہ اس جنگ کو محدود رکھنے کی کوشش کر رہا ہے‘ دوسری طرف ایران‘ عراق اور شام بھی ضرورت پڑنے پر حزب اللہ کی مدد کےلئے آ سکتے ہیں اسلئے امریکہ اس جنگ کو پھیلانے کے حق میں نہیں ہے اسرائیل حماس کو شکست دے سکتاہے یا نہیں اسکا فیصلہ تو بعد میں ہوگا مگر یہ طے ہے کہ امریکہ عالمی رائے عامہ کی جنگ میں شکست کھا چکا ہے اسے ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں سخت تنقید کا سامنا ہے‘ ان خطوں میں رائے عامہ مکمل طور پر امریکہ اور اسرائیل کےخلاف ہے‘ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ روس یوکرین پر حملہ کرے تو مغربی ممالک اسے ظالم‘ وحشی اور سفاک کہتے ہیں لیکن اسرائیل غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دینے کے بعد بھی ایک
مہذب ملک کہلاتا ہے‘ آج اسلامی ممالک کے علاوہ امریکہ اور یورپ کے شہروں میں بھی اسرائیل کی بربریت کے خلاف بھرپور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ روس نے جب یوکرین پر حملہ کیا تھا تو مغربی ممالک نے کہا تھا کہ ماسکو کو یوکرین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔آج فلسطینی پوچھ رہے ہیں کہ اگر روس کا یوکرین کے علاقوںپر قبضہ غلط تھا تو اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ اگر روس کا شہری آبادیوں پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی تو اسرائیل کن قوانین کے تحت تین ہفتوں سے مسلسل نہتے فلسطینیوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ مغربی ممالک یوکرین کے شہریوں کومظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں عراق‘ شام‘ یمن‘ فلسطین اور افغانستان کے عوام نظر نہیں آتے جنہیں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میںغریب ممالک کے لوگ کیونکہ مغرب کے اس دہرے معیار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اسلئے انہوں نے یوکرین جنگ کے مسئلے پر امریکہ کے اصرار کے باوجود روس کی مخالفت نہیں کی۔ یورپ کے سوشل میڈیا پر تو لوگ کھلم کھلا مغرب کی اس منافقت کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ طے ہو چکا ہے کہ اہل فلسطین نے ایک مرتبہ پھر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مغربی ممالک کی اخلاقی برتری کے دعووں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔