مختلف لوگوں سے ملاقاتیں

معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریل کے سفر میں ایک غیر ملکی سے ملاقات کی داستان اپنے مخصوص دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے ہیں ‘ ان کا کہنا ہے کہ جان بیل صاحب سے میں نے کہاکہ آپ اکثر ریل گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں آپ کو یہ سفر کیسا لگتا ہے؟ انہوں نے چند فقروں میں ساری بات کہہ دی اپنے آسٹریلیوی لہجے میںکہنے لگے ” ریل گاڑی کا سفر مجھے بہت اچھا لگتا ہے ریل گاڑی میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں کچھ لوگ اپنے رشتے داروں کے پاس جا رہے ہوتے ہیں کچھ کام پر جانے والے لوگ ہوتے ہیں کچھ سیرو تفریح پر جانے والے لوگ ملتے ہیں لیکن ریل گاڑی کے اندر ہم سب ایک خاندان بن جاتے ہیں ‘یوں اگرچہ عام طور پر ہم اپنے دل کی بات لوگوں کو نہیں بتاتے لیکن ریل گاڑی کے اندر تو ہم دل کھول دیتے ہیں اور آزادی سے بولتے ہیں‘ میں سوچتا ہوں کہ یہ بہت اچھی بات ہے ‘پاکستان کے ہر قسم کے لوگ ریل گاڑی میں ملتے ہیں اکثر ہم سندھ سے راولپنڈی جاتے ہیں تو شروع میں سندھی ملتے ہیں پھر ہم پنجاب میں آتے ہیں تو پنجابی ملتے ہیں آگے پٹھان بھی ملتے ہیں ہر قسم کے لوگ ملتے ہیں اور سب ساتھ مل کر اچھی طرح سفر کرتے ہیں‘ جان بیل صاحب سے یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ بہاولپور کے نواحی علاقے آنے لگے جن میں گوداموں اور فیکٹریوں کی عمارتیں بھی مسلم طرز تعمیر کا مرقع تھیں‘ بہاولپور کو کبھی بغداد الجدید کہتے تھے ریاست کا نقشہ بھی عراق جیساتھا وہاں کھجوریں بھی عراق سے لاکر لگائی گئی تھیں وہاں کے محل اور شاہی عمارتیں بھی عراق جیسی تھیں بالآخر چمکتا دمکتا ملتان کا اسٹیشن آیا وہی رونق ‘ وہی چہل پہل‘ وہی دوڑدھوپ‘ وہی شور شرابا‘ وہی سودے والے‘ وہی ٹرین پر چڑھنے والوں کا اضطراب ‘ وہی اترنے والوں کی تگ ودو‘ ایک زمانہ تھا لوگ کھڑکیوں کے راستے چڑھ آتے تھے سو اب پورے برصغیر میں ریل گاڑیوں کی تمام کھڑکیوں میں سلاخیں لگادی گئی ہیں جنکے راستے آپ زیادہ سے زیادہ سودے والے کو پیسے دے سکتے ہیں‘ اسٹیشن کا عملہ واقعی اتنا خوش اخلاق اور باادب تھا جتنا ریلوے ٹائم ٹیبل کی پشت پر لکھا ہے کہ اسے ہونا چاہئے بس یوں سمجھئے کہ جیسے بڑے لوگوں کو شہر کی چابی دی جاتی ہے انہوں نے مجھے ملتان کینٹ کی چابی دے دی جی چاہا کہ ہر ایک سے باتیں کروں ہر ایک کا حال دریافت کروں سوچا کہ گاڑی کا انتظار کرنے والے مسافروں سے پوچھوں کہ انہیں سفر کی ضرورت کیوں پیش آئی ایک نوجوان محمد حسین سے میں نے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں کلورکوٹ جارہا ہوں‘ کیوں؟ میں ادھر ملازمت کرتا ہوں اور چھٹی پر دو دن کیلئے جارہا ہوں گھر‘ ایک اور بظاہر پڑھے لکھے نوجوان سے میں نے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ ہم راولپنڈی جارہے ہیں‘ مکان تعمیر کرتے ہیں‘ ہم مستری لوگ ہیں‘ ایک اور ہونہار نوجوان سے ملاقات ہوئی ‘میں نے پوچھا آپ کا ارادہ کدھر کا ہے؟ بولے کلورکوٹ‘ وہاں کیوں جارہے ہیں؟ وہاں گھر ہے یہاں داخلہ لینے آیا تھا کمپیوٹر انجینئرنگ میں‘ جی خوش ہوا لوگ دشواریوں کےباوجود آگے پڑھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اب میری ملاقات ریلوے کے ایک کلینر سے ہوئی وہ جو آتی جاتی ریل گاڑیوں کے ڈبوں کی صفائی کرتا ہے محمد مبین کوئی دس سال سے کلینر ہیں وہ بھی مزدور تحریک میں شامل تھے مگر پھر انہوں نے توبہ کرلی ‘میں نے صرف ایک لفظ میں سوال کیا کیوں‘ ان کا جواب ان ہی کے الفاظ کے مطابق تحریکوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہاں مزدوروں کا تحفظ تھا بس ہمارے جیسے مزدوروں کا استعمال کرتے رہے۔