اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجوہات

عام طور پردوست ممالک کے مابین اہم سفارتی معاملات میڈیا پر آنے سے پہلے ہی طے کر لئے جاتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اتحادی ممالک کے باہمی اختلافات ختم ہونے سے پہلے ہی عوامی مکالمے کا حصہ بن جائیںامریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کے اس مرتبہ اسرائیل جانے سے پہلے یہ کہا گیا تھاکہ وہ بنجامن نتن یاہو سے غزہ میں انسانی فلاح و بہبود کے وقفے کی بات کریں گے تاکہ وہاں عارضی طور پر جنگ بندی کرکے پانی‘ خوراک اور ادویا ت لوگوں تک پہنچائی جاسکیں‘ اس وقت عام تاثر یہی تھا کہ واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان یہ معاملہ پہلے سے طے پا چکا ہو گا‘اس لئے انٹونی بلنکن کے وہاں پہنچتے ہی غزہ کے بائیس لاکھ تباہ حال اور محصور لوگوں کےلئے اس رعایت کا اعلان کر دیا جائیگامگر اسرائیل کے وزیر اعظم نے بڑی ڈھٹائی سے تل ابیب میں انٹونی بلنکن کی موجودگی میں امریکہ کے اس مطالبے کو واشگاف الفاظ میں یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جنگ میں کسی بھی قسم کا تعطل اسرائیل کے یرغمالی شہریوںکی رہائی کی شرط پر ہو گا‘بنجا من نتن یاہو نے امریکہ کی یہ درخواست ایک ایسے وقت میں نامنظور کی ہے جب کہ صدر بائیڈن نے سات اکتوبر کے روز حماس کے اسرائیل پر حملے کے فوراّّ بعد دو بڑے جنگی بیڑے بحیرہ روم بھجوا دئیے تھے اور کانگرس کو اسرائیل کےلئے چودہ بلین ڈالر کی امداد کا بل بھی ارسال کر دیا تھا غزہ میں نو ہزار سے زیادہ افراد کو شہید اور بتیس ہزار کو وحشیانہ فضائی حملوں میں زخمی کر نے کے بعد اس وقت اسرائیل کو پوری دنیا میں سخت مخالفت اور نفرت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس دفاعی پوزیشن میں ہوتے ہوئے اور امریکہ کی سفارتی‘ مالی اور عسکری امداد پر مکمل طور پر انحصار کرتے ہوئے بھی اسرائیل نے اپنے محسن کی درخواست کو مسترد کر دیا اس سفارتی مخمصے کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو
 انٹونی بلنکن کے حالیہ دورے سے پہلے ہی یہ معلوم تھا کہ بنجا من نتن یاہو انکار کر دیں گے اس تھیوری کو صحیح ثابت کر نے کےلئے یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ اس ہٹ دھرمی کے بعد اسرائیل یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں مکمل طور پر آزاد ہے اور وہ اہم فیصلے کرتے وقت امریکہ جیسے مہربان اور جانثار دوست کو بھی خاطر میں نہیں لاتا‘ یہ دلیل اگر درست ہے تو پھر انٹونی بلنکن کو اس درخواست کےلئے تل ابیب جانے کی کیا ضرورت تھی یہ اعلان تو واشنگٹن سے بھی کیا جا سکتا تھا ‘ سیکرٹری آف سٹیٹ کے اس دورے کا امریکہ کو البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ پوری دنیا نے یہ دیکھ لیا ہے کہ امریکہ غزہ کے خون میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے غم میں کتنا ہلکان ہو رہا ہے ۔صاف نظر آ رہا ہے کہ واشنگٹن نے اگر اپنے ورلڈ آرڈر کو منہدم ہونے سے بچانا ہے تو اسے کچھ ایسی حرکات و سکنات کرنا ہوں گی جس سے دنیا کو اسکے مہربان‘ غمگسار اور غیر جانبدار ہونیکا یقین ہو جائے۔ اقوام عالم کا اگر امریکہ سے اعتبار اٹھ جائےگا تو وہ پھر اپنے عالمی نظام کا تحفظ کیسے کر سکی گا۔ اسلئے ضروری ہے کہ اسرائیل جب تک ہر روز غزہ پر سینکڑوں فضائی حملے کرتا ہے‘ اور جب تک اسکی فوج حماس کیساتھ ایک ہولناک زمینی جنگ میں الجھی ہوئی ہے اسوقت تک سیکرٹری آف سٹیٹ کا تل ابیب آنا جانا لگارہے تا کہ امریکہ کی نام نہاد اخلاقی برتری کا بھرم قائم 
رہے۔موجودہ صورتحال میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل کے غزہ پر ہزاروں ٹن گولہ بارود برسانے کے بعد بھی امریکہ کی اخلاقی برتری اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو پھر اخلاقی برتری بے معنی ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں صرف مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اخلاقیات کے جھمیلوں میں نہیں پڑا جاتا اسرائیل سے جب یورپی ممالک تحمل اور برداشت سے کام لینے کی درخواست کرتے ہیں تو وہ بلا تامل جواب دیتا ہے کہ یورپ نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کتنی برداشت اور رحمدلی سے کام لیا تھا۔اسرائیل اگر عالمی رائے عامہ کو خاطر میں نہیں لاتاتو اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ امریکہ کو اسکی مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی عسکری طاقت کے طور پر موجودگی کی ضرورت ہے۔ بعض یہودی صحافی تو کبھی کبھار یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اسرائیل امریکہ کےلئے بے پناہ قربانیاں دے رہا ہے۔ اس استدلال کو اسلئے درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایک تو اسرائیل چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور دوسرا امریکہ کو بحیرہ روم کے ساحل پر ایک ایسے طاقتور اتحادی کی ضر ورت ہے جو دنیا کی اس اہم ترین تجارتی گذر گاہ پر پہرہ دے سکے۔ اسرائیل‘ امریکہ کی اس کمزوری اور اپنی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے اسلئے وہ امریکہ سے ہر قسم کی امدادلینے کے باوجود اسے خاطر میں نہیں لاتا۔ پون صدی قبل اسرائیل کی تخلیق کی اہم ترین وجہ مغربی ممالک کو مشرق وسطیٰ کے تیل کی فراہمی کی ضمانت دینا تھا۔ اب امریکہ کو مڈل ایسٹ کے تیل کی ضرورت نہیں رہی مگر یورپی ممالک اب بھی اسکی فراہمی کےلئے عرب ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ جب تک اسرائیل عرب ممالک کے سینے پر مونگ دلنے کا کردار ادا کرتا رہیگا اسکی اہمیت برقرار رہیگی اور اسکا ہاتھ روکنے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔