لاہور سے ملتان

معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے ریل کے سفر کی روداد میں بتاتے ہیں کہ ملتان اور لاہور کے درمیان دو سو آٹھ میل لمبی ریلوے لائن 1864ءمیں ڈالی گئی تھی اس وقت یہ کام آسان نہ تھا‘ مقامی ٹھیکے دار اناڑی تھے زیادہ تر علاقہ ریگستانی تھا اور مزدور نہیں ملتے تھے یہاں تک کہ وہ پتھر بھی نہیں ملتا تھا جو توڑ کر پٹریوں کے ساتھ ساتھ بچھایا جاتا ہے لہٰذا لاہور کے ایک بااثر ٹھیکے دار نے ( جس کا ذکر آگے آنے والا ہے) نہ صرف مغلوں کے زمانے کی شاندار عمارتیں گرا کر ان کی اینٹیں بچھائیں بلکہ راہ میں پڑنے والے ہڑپہ کے تاریخی کھنڈروں کی اینٹیں بھی اس لائن پر بچھادیں‘ لاہور امرتسر لائن یکم اپریل1862ءکو کھل چکی تھی اس وقت لاہور اور ملتان کے درمیان دریا کے راستے اسٹیم بوٹ چلا کرتی تھی یہ دونوں شہر ریل کے ذریعے دوسال بعد ملے اور اس لائن پر پہلی مسافر گاڑی اور ایک سال بعد24اپریل1865ءکو چلی ‘سرزمین پنجاب پر ریلوے کی تاریخ کا یہ بہت اہم دن تھا گاڑی لاہور سے نکلی تو ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لارنس اور پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سررابرٹ منٹگمری اس پر موجود تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ صرف اگلے اسٹیشن تک گئے‘ اس زمانے میں یہاں ریل گاڑیاں رات کے وقت نہیں چلتی تھیں‘1866ءمیں ریل کا رات کا سفر بھی شروع ہوا کوئلہ کمیاب تھا چنانچہ چھانگا مانگا کے جنگل سے لکڑی لی جاتی تھی اور انجن اس سے چلتے تھے وہ نظام برازیل سے بہرحال بہتر تھا جہاں کہتے ہیں کہ ریل گاڑی چلتے چلتے کسی ویرانے میں رک جاتی تھی اور مسافروں سے کہا جاتا تھا کہ وہ نیچے اتریں اور سوکھی ہوئی لکڑیاں چن کر لائیں تاکہ گاڑی چلے‘ ان دنوں لاہور اور ملتان کے درمیان بہت کم لوگ سفر کرتے تھے اس لئے روز صرف ایک ٹرین چلتی تھی اور یہ سفر بارہ گھنٹے اور کبھی کبھی14گھنٹے میں طے ہوتا تھا کرایہ بھی کم تھا اول درجے کے15روپے14آنے‘ سکینڈ کلاس کے نو روپے اورعام رعایا کے خیال سے تیسرے درجے کے صرف تین روپے چارآنے۔ اس لائن کی تعمیر پر اس وقت فی میل ایک لاکھ دس ہزارروپے خرچ ہوئے تھے اسی لائن پر سفر کرتی ہوئی ہماری گاڑی ایک اسٹیشن پر رکی شام ہو چلی تھی‘ دن کی تمازت جاچکی تھی اور گاڑی سے پہلے شہر کے نوجوان بن سنور کر اسٹیشن پر آچکے تھے لڑکوں کی ایک ٹولی نے زنانہ ڈبے کے بالکل سامنے پتنگ اڑانے کی کوشش کرنے لگے ایک لڑکا جس نے اپنے بال اچھی طرح سنوارے تھے ڈوری پکڑ کر کھڑا ہوا اور دوسرا لڑکا جس نے اپنی قمیض کے کالر کھڑے کر رکھے تھے کچھ فاصلے پر پتنگ پکڑ کر کھڑا ہوا اور پکا دینے لگا‘ باقی لڑکے اس انتظار میں کھڑے تھے کہ پتنگ بڑھے تو داد دیں لیکن اس شام ہوا بند تھی پتنگ کو نہ بڑھنا تھا نہ بڑھی‘ اسی طرح کے تماشے دیکھتی دیکھتی ہماری ٹرین خانیوال کی طرف بڑھی‘ کہتے ہیں کہ یہاں ریل گاڑی تیر کی طرح بالکل سیدھی چلتی ہے سنا ہے کہ لاہور اور ملتان کے درمیان114 میل کا ٹکڑا ایسا سیدھا اور سپاٹ ہے کہ ریل گاڑی لکیر کی طرح دوڑی چلی جاتی ہے راہ میں نہ کوئی ٹیلہ ہے نہ پہاڑی نہ کوئی دریا ہے نہ ندی‘ صرف نہروں کے اوپر کچھ پل ہیں اوربس۔ ہماری گاڑی خانیوال پہنچ گئی جیتا جاگتا اسٹیشن تھا مسافر نیچے اترآئے ‘چائے کا وقت تھا پلیٹ فارم پر چائے چائے کی صدا لگنے لگی میں پلیٹ فارم کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے لگا بیٹھا تھا کہ ایک چھوٹا سا لڑکا میرے کان میں چلایا چائے‘ میں چونک کر اٹھ بیٹھا اورکہا کتنے کی ہے چائے‘ تین روپے کی‘ یہ تو بہت مہنگی ہے‘ جی‘ کچھ نہیں اچھا یہ بتاﺅ کہ گرم ہوگی‘ جی ہاں بہت اچھی ہے‘ اچھا لے آﺅ‘ کتنی؟ ایک ‘ شکریہ‘ اتنے چھوٹے سے شہر کے اتنے چھوٹے سے لڑکے کو خوش ہو کر شکریہ کہتے سنا تو میں دنگ رہ گیا‘ ان معاشروں میں تو بڑے بھی خیال رکھتے ہیں کہ کہیں کسی کو احساس نہ ہو جائے کہ وہ احساس مند ہیں‘ ممنون ہیں اور شکرگزار ہیں‘ اتنے میں ایک درویش صفت بزرگ نظر آئے جن کے ہاتھوں میں جوتے پالش کرنے کا سازوسامان تھا انہیں توصوفیوں کے کسی دائرے میں ہونا چاہئے تھا میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کام کرتے ہیںکہا بوش پالش کرتا ہوں ‘رب روزی روٹی دے دیتا ہے۔