ملازمین سے بات چیت

اپنے ریل کے سفر کی تفصیل میں معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی بتاتے ہیں کہ ریلوے ملازمین سے بات چیت کیساتھ میرے میزبانوں نے کہا کہ چلئے آپ کو حکام بالا سے ملوائیں میں نے اصرار کیا کہ کسی غریب مزدور سے ملوایئے اب میری ملاقات ریلوے کے ایک کلینر سے ہوئی وہ جو آتی جاتی ریل گاڑیوں کے ڈبوں کی صفائی کرتا ہے محمد مبین کوئی دس سال سے کلینر ہیں محمد مبین نے بتایا کہ ان کی مہینے بھر کی آمدی اکیس سو بائیس سو روپے تک بنتی ہے میں نے پوچھاکہ آپ کا کنبہ کتنا بڑا ہے آپ کے ساتھ کتنے لوگ رہتے ہیں؟ میرے ساتھ دو بھائی ہیں‘ ایک میری والدہ‘ ایک میں ہوں ایک میری بیوی ہے اور میرے چھوٹے بھائی کی بیوی ہے اور بچے ہیں‘ میں نے پوچھا آپ کے گھرانے میں کوئی اور بھی کماتا ہے‘ ایک بھائی اور بھی کام کرتے ہیں وہ پرانی جوتیاں جوڑتے ہیں جناب پرانے جوتے مرمت کرتے ہیں سڑک کے اوپر‘ صاف بات تھی صاف صاف کہہ دی گئی میں نے محمد مبین سے پوچھا کہ اتنی تھوڑی سی آمدنی میں آپ لوگوں کا گزارا ہو جاتا ہے’ بس شکر ہے اس آمدنی میں ہوجاتا ہے گزارا‘ یہ ہوئی غریب کلینر کی بات‘ اب میرا جی چاہا کہ ریلوے کے کسی انجن ڈرائیور سے بات کروں‘ سامنے ٹرین کھڑی تھی اور اسکے چھوٹنے میں کچھ دیر تھی میں اجازت لے کر انجن میں داخل ہوگیا جدید طرز کا ڈیزل انجن تھا جس میں نہ بھٹی سلگ رہی تھی اور نہ بھاپ کے بادل اٹھ رہے تھے ڈرائیور کا نام‘ فرض کیجئے عبدالرحمن تھا‘ بے حد اخلاق سے ملے بس انسان میں حسن سلوک ہو تو ایسا ہو ریلوے کے پرانے ملازم ہیں لیکن ترقی کرتے کرتے ڈرائیور ہوگئے ہیں اور نو سال سے ڈرائیور ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ ڈرائیور بننے کے بعد تو آپ کو آرام ملا ہوگا؟ کہنے لگے دراصل بات یہ ہے کہ ڈرائیور ہونے کے بعد آرام تو ملتا ہے لیکن ذمہ داری پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ یہ پبلک سیفٹی کا معاملہ ہوتا ہے دوسرے ویسے بھی ڈرائیور کی ڈیوٹی بڑی سخت ہے خاص طور پر ہمیں جو پی وی ٹی جانا ہوتا ہے ڈرائیور کی نگاہ چھ ہو نی چاہئے اور چالیس سال کی عمر سے پہلے چشمہ نہیں لگنا چاہئے تو آرام تو ہے لیکن ذمہ داری زیادہ ہے‘ میں اگرچہ توجہ سے ان کی باتیں سن رہا تھا لیکن یہ بھی بھی نہ جان سکا کہ یہ پی وی ٹی کیا ہے اور نگاہ کے چھ بائی چھ ہونے سے کیا مراد ہے میں نے انہیں ذرا سارا چھیڑا اورکہا کہ آج کے انجن مجھے اچھے نہیں لگتے کیونکہ ان میں نہ تو وہ چھک چھک کی آواز ہوتی ہے نو وہ کو والی سیٹی ہوتی ہے یہاں تک کہ کوئلے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اڑ کر مسافروں کی آنکھوں میں گرا کرتے تھے اب وہ بھی نہیں گرتے‘ بھاپ سے چلنے والے انجن کے زمانے کو یاد کرکے وہ بھی بہت محظوظ ہو ئے اور اس کا آج کے دورسے موازنہ کرنے لگے وہ سر پہلے جب اسٹیم انجن چلا کرتے تھے تو ڈرائیور کو ذرا سختی معلوم ہوتی تھی کیونکہ اس میں ہر وقت ایک سواسی پاﺅنڈ بھاپ انجن میں رہا کرتی تھی تو آج تو ڈیزل کی ورکنگ ہوگئی ہے تو آرام ہے کہ ڈرائیوری بیٹھ کر کرتے ہیں پہلے ہم کھڑے ہو کر ڈرائیوری کرتے تھے اسٹیم انجن میں زندگی زیادہ سخت تھی فائر مین جو ہوتے تھے وہ بھی تگڑے اور تن درست ہوتے تھے اب ڈیزل آنے کے بعد اتنا کام نہیں ہے جتنا کہ آج سے بیس سال پہلے ہوا کرتا تھا‘ میں نے عبدالرحمن صاحب سے جن کا اصل نام میں جان بوجھ کر چھپا رہا ہوں‘ پوچھا کہ آپ کی ریل گاڑیاں پابندی وقت کے معاملے میں بدنام ہیں یہ ٹرینیں اکثر اتنی لیٹ کیوں ہوتی ہیں؟ سر ‘وجہ یہ ہے کہ جب سے یہ ریل بنی ہے تو ہمارا یہ سنگل ٹریک ہی چلا آرہا ہے اس وقت جہاں جہاں ڈبل ٹریک ڈالا گیا تھا بس وہی ڈبل ہے تو عموماً ڈبل لائن تک ٹرینیں رائٹ ٹائم آتی ہیں اب پہلے کی نسبت ٹرینیں تو ہم نے دس گنا کرلی ہیں لیکن ٹریک وہی ہیں اسی ٹریک پر مال گاڑی چل رہی ہے اسی پر یہ مسافر گاڑیاں بھی چل رہی ہیں ٹرینوں کارش ہوگیا ہے تو زیادہ تر جوٹرینیں لیٹ ہوتی ہیں یہ کراسنگ کی وجہ سے یا کنٹرول آفس کی طرف سے لیٹ ہوتی ہیں ڈرائیور کی طرف سے سو دن میں ایک دن ٹرین لیٹ ہوتی ہے جب کہ اس کا انجن خراب ہو جائے۔