سفرنامہ اور تاریخ


رضا علی عابدی اپنے ریل کے سفر کی روداد میں دلچسپ انداز کے ساتھ جہاں ضروری ہو تاریخ کا حوالہ بھی دے دیتے ہیں جیسے لاہور ریلوے سٹیشن سے متعلق بناتے ہیں کہ کیا آپ نے کبھی لاہور کا ریلوے اسٹیشن دیکھا ہے؟ اگر دیکھا ہے تو کبھی سوچا ہے کہ اسٹیشن کی عمارت بالکل قلعے جیسی ہے اور کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت قلعہ جیسی کیوں ہے؟ 
برصغیر کا قابل دید ریلوے اسٹیشن لاہور کا ہے اسے دور سے دیکھئے تو خیال ہوتا ہے کہ کوئی قلعہ ہے یہ عمارت قلعے کی شکل پر اس لئے نہیں بنائی گئی کہ قلعہ لاہور کی جڑواں عمارت کہلائے بلکہ جن دنوں یہ عمارت بنی وہی دن تھے جب ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اہل ہند کے سروں میں آزادی کا سودا سمایا ہوا تھا اور وہ بدیسی حکمرانوں کو دیس نکالا دینے کیلئے سر سے کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ 1857ءکے یہ وہی دن تھے جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جارہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جارہی تھیں ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے تاکہ فوجوںکو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے‘ وہ جو آزادی کے دھن میں مگن تھے سندھ سے لیکر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ‘ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طپنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر فائر کر رہے تھے لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جارہا تھا‘
 کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا اس میں فصلیں بھی تھیں برج بھی تھے رائفلیں داغنے کیلئے فصیلوں کے روزن بھی تھے اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے گئے تھے تاکہ اگر حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیئے جاتے تھے یہ شاید وہی دن تھے جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔
لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی جہاں یہ اسٹیشن ہے اسے بھی ہٹا کر دور لے جانا پڑا‘ لاہور اسٹیشن کا نقشہ ریلوے کے چیف انجینئر ولیم برنٹن نے بنایا ان ہی کے بھائی جان برنٹن نے کراچی اور زیریں سندھ میں ریلوے لائن ڈالی تھی‘ لاہور اسٹیشن کی تعمیر پر پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے اور اس کی تعمیر میں محمد سلطان ٹھیکے دار بھی شامل تھے۔
پنجاب پر جن دنوں سکھوں کی حکمرانی تھی اور مہاراجا رنجیت سنگھ کا سکہ چلتا تھا‘ لاہور میں ایک صاحب تھے سلطان کشمیری‘ نہایت تنومند تھے کسرتی بدن تھا اور صابن بنا کر بیچاکرتے تھے اپنے تن و توش کی وجہ سے علاقے میں ان کا جورعب داب رہا ہوگا اس کی تو خبر نہیں لیکن ان کی ایک خوبی کا ہمیں آج بھی علم ہے اور وہ یہ کہ انہیں جو کام سونپ دیا جائے راتوں رات سرانجام دے دیتے تھے۔
 نئے حکمرانوں نے جب لاہور چھاﺅنی بنانی شروع کی تو بارکیں تعمیر کرنے کاٹھیکہ محمد سلطان کو مل گیا یہ بات1850ءکی ہے غالباً حکم یہ تھا کہ چھاﺅنی راتوں رات بنادی جائے‘ محمد سلطان کو تو کام اسی طرح سرانجام دینے کی مہارت حاصل تھی انہوں نے بہت آسان حل ڈھونڈ نکالا۔