اسرائیل ‘ حماس کو غزہ سے بیدخل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں‘ ہر دو صورتوں میں اس سوال کی اہمیت اپنی جگہ برقرار رہے گی کہ کیا حماس کو معلوم نہ تھا کہ سات اکتوبر کو اسرائیلی شہروں پر حملے کرنے کے بعد اسے ایک بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حماس کی قیادت نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ انہیں اسرائیل کے خوفناک حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا مگر وہ یہ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ دنیا فلسطین کو نظر انداز کر کے اسرائیل کو ہمیشہ کے لئے غزہ اور مغربی کنارے کا حکمران تسلیم کر لے۔ دوحا میں حماس کے لیڈر خلیل الحیا نے ایک امریکی صحافی سے کہا ہے کہ ” ہم نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی رائے عامہ کے سامنے لانے کی ایک قیمت ادا کرنا تھی‘ اس قیمت کو ادا کئے بغیر ہم اقوام عالم کی توجہ حاصل نہیں کر سکتے تھے“ خلیل الحیا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ” ہم اسرائیل کے ساتھ صرف ایک جھڑپ نہیں چاہتے تھے بلکہ ہم سٹیٹس کو ختم کر کے اس جنگ کا ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے تھے۔“ دنیا بھر میں اسرائیل کے ظلم و تشدد کے خلاف ہونیوالے احتجاج سے پتہ چلتا ہے کہ حماس نے ایک بھاری قیمت ادا کر کے اس مفروضے کو دفن کر دیا ہے کہ اسرائیل ‘ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے عرب ممالک کے ساتھ ایک اچھے پڑوسی کی طرح مل جل کر رہ سکتا ہے۔ حماس کے میڈیاایڈوائزر النوانو نے کہا ہے کہ انکی کوشش ہے کہ اسرائیل کی تمام سرحدوں پر مستقل جنگ جاری رہے اور عرب ممالک آزادی کی اس جہد و جہد میںان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں“ اسرائیل نے ایک مہینے میں گیارہ ہزار سے زیادہ نہتے فلسطینیوں کو شہید کرنے کے علاوہ غزہ کے دو تہائی حصے کو مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے مگر اس خوفناک غارت گری کو دیکھنے کے باوجود عرب حکمرانوں نے چند بیانات دینے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ اس محاذ پر حماس کو اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی رد عمل کو دیکھتے ہوئے اب عرب ممالک ابراہام معاہدے کا نام نہیں لے رہے۔ بے حکمتی کے
اس الاﺅ کے شعلے وقتی طور پر سہی ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ حماس نے اپنے عرب ہمسایوں کے خلاف کلمئہ اختلاف بلندکئے بغیر ان کی منافقت کی سیاست کو لگام دے دی ہے۔ تل ابیب میں نتن یاہو کی حکومت کا اختتام نوشتہ دیوار ہے۔ ہر سال امریکہ سے 3.8 بلین ڈالر کی فوجی اور مالی امداد لینے والا اتحادی اب ہزیمت اٹھانے کے بعد مظلوم فلسطینیوں پر بارود پاشی کر کے اپنے طاقتور ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کے میزائلوں اور راکٹوں سے لیس بکتر بند دستے شمالی غزہ میں خون بہاتے ہوئے پیش قدمی کر رہے ہیں اور دوسری طرف
بنجا من نیتن یاہو نے امریکی ٹیلی ویژن ‘ این بی سی کو بتایا ہے کہ وہ جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ کے انتظامی معا ملات میں فلسطین اتھارٹی کو شامل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ غزہ کو حماس کے تسلط سے آزاد کرانے کے بعد اس کے عسکریت پسند رحجانات کا خاتمہ کر دیں گے اور اس میں موجود ہتھیاروں کے تمام ذخائر کو تباہ کر دیا جائیگا۔ نتن یاہو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کیونکہ یہ مقاصد حاصل کرنے میں انکی مدد نہیں کر سکتی اس لئے اسے غزہ کی حکمرانی میں شریک نہیں کیا جا ئے گا۔ اسرائیلی حکمرانوں کے یہ منصوبے بائیڈن انتظامیہ کی اس پالیسی کے بر عکس ہیں جس کے تحت اسرائیل کو غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے سے گریز کا مشورہ دیا گیا ہے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ غزہ کی نئی
حکومت میں فلسطینی عوام کی نمائندگی ضروری ہے اور اس مقصد کے لئے فلسطین اتھارٹی کو ویسٹ بینک کے علاوہ غزہ کے انتظامی معاملات بھی سونپے جا سکتے ہیں۔ اسرائیل ماضی میں غزہ کے انتظامات کو خوش اسلوبی سے چلانے میں ناکام رہا ہے اس لئے امریکہ اسے اس غلطی کو نہ دہرانے کی تلقین کر رہا ہے۔ غزہ میں حماس کے علاوہ بھی کئی عسکری تنظیمیں موجود ہیں جو اسرائیل کویہاں قدم جمانے نہیںدیں گی ۔ اس محاذ پر پسپا ہو کر 2005 ءمیں اسرائیل نے غزہ کے انتظامات محمود عباس کی فلسطین اتھارٹی کے سپرد کر دیئے تھے۔ اس کے دو سال بعد حماس نے انتخا بات جیت کر غزہ کے معاملات سنبھال لئے تھے۔ اب بنجا من نیتن یاہو گھڑی کی سوئیوں کو واپس لے جا کرایک مرتبہ پھر غزہ پر حکمرانی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ این بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فلسطین اتھارٹی کو صرف اس صورت میں غزہ کے انتظامات میں شریک کیا جائے گا جب وہ حماس کی واضح الفاظ میں مذمت کرے گی۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فلسطین اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو رودینا نے کہا ہے کہ اسرائیل کا ویسٹ بینک کو غزہ سے جدا کرنے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ فلسطین اتھارٹی کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیل ویسٹ بینک‘ غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے منصوبے سے دستبردار نہ ہوا تو اسے کبھی بھی تحفظ اور استحکام نہ مل سکے گا۔ فلسطین کے دشت بے اماں میں آخری فیصلے کا اختیار کسے حاصل ہے اس کے بارے میںکچھ نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ بحیرہ روم میں دو بحری بیڑے بجھوانے اور اسرائیل کو جدید اسلحے کے انبار مہیا کرنے کے باوجود اگر اپنی بات نہیں منوا سکتا تو اسرائیل بھی اپنی تمام تر برہنہ طاقت کے باوجود غزہ کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ حماس کو شکست دی جا سکتی ہے یا نہیں ہر دو صورتوں میںامریکہ اور اسرائیل دونوں آگے دلدل پیچھے کھائی والی صورتحال سے دو چار ہیں۔ ان حالات میں غزہ کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسرائیل اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔