ایک ڈرائیور سے بات چیت

 
رضا علی عابدی اپنے ریل کے سفر کی روداد میں سٹیشن سے ٹیکسی میں بیٹھنے اور سفر کا حال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں ریلوے سٹیشن سے نکل کر ٹیکسیوں کی طرف چلا‘ پیلی چھت والی بہت سی ٹیکسیاں کھڑی تھیں‘ مجھے انگلستان کی عادت ہے‘ مسافر سب سے آگے کھڑے ہوئی ٹیکسی کے پاس جاتا ہے‘ چار قدم جانا ہو یا چار کوس‘ ٹیکسی ڈرائیور سعادت مندی سے بٹھا کر منزل مقصود پر پہنچا دیتا ہے مگر اس روز لاہور کے سٹیشن پر میں نے دیکھا کہ مجھے اپنی جانب آتا دیکھ کر ٹیکسی والے انجان بن گئے اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔ ایک بھلے مانس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور مجھے اپنی ٹیکسی میں بٹھا لیا‘ ان کا نام محمد طفیل تھا‘ میں نے پوچھا کہ طفیل صاحب یہ ٹیکسی والے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھانے سے گریز کیوں کر رہے تھے؟ انہوں نے ساری بات سمجھا دی‘ کہنے لگے کہ یہ ریلوے سٹیشن کا ٹیکسی سٹینڈ ہے لوگ ٹرین سے اترنے والے مسافروں کو بٹھاتے ہیں کیونکہ انہیں دور دور جانا ہوتا ہے‘ آپ ٹرین کے مسافر نہیں کوٹ پتلون پہنے ہوئے ہیں اس لئے ڈرائیوروں کو اندازہ ہو گیا کہ آپ یہیں کہیں شہر میں جائیں گے۔ محمد طفیل کی اس وضاحت نے میرے ذہن کے بے شمار طبق روشن کر دیئے مجھے لوئر مال جانا تھا میں نے محمد طفیل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ بہت اچھے آدمی ہیں میری یہ بات شاید انہیں اچھی لگی وہ میری بات کی خود ہی تصدیق کرتے ہوئے اپنا ایک واقعہ سنانے لگے ”ایک بار ادھر سکیم موڑ سے سواری اٹھائی ان کے گھر میں شادی تھی ان کا بیگ میری گاڑی کی ڈگی میں رہ گیا مجھے خبر بھی نہیں میں رائے ونڈ روڈ پر اپنے گھر چلا گیا‘ رات کے ساڑھے گیارہ کا وقت ہو گیا اور میں سونے لگا اتنے میں ایک آدمی آ گیا اور کہنے لگا کہ مجھے سٹیشن چھوڑ کر آﺅ‘ مجھے اسلام آباد جانا ہے میں نے کہا چلو بھائی چھوڑ آتا ہوں‘ میں ریلوے اسٹیشن پہنچا اسی وقت شالیمار آگئی میں نے سوچا چلو کوئی سواری اٹھالیں تو سواری اٹھانے لگا تو ڈگی میں ان لوگوں کا بیگ نظر آیا
 مجھے معلوم تھا کہ ان کی کوٹھی کہاں ہے‘ میں رات کو دو بجے ان کے گھر پہنچا ان کے گھر میں تو ایسے تھا جیسے قیامت آگئی‘ اس بیگ میں کیا تھا کیا نہیں تھا‘ مجھے نہیں معلوم‘ میں نے کوئی چیز اس کی چھیڑی نہیں یعنی کہ ہاتھ بھی نہیں لگایا نہ سوار ی کو لگانے دیا‘ اس سے میں کہا کہ تم اپنا سامان اوپر رکھو یہ نہ ہو کہ میں بھی بھول جاﺅں تو تم لے جاﺅ‘ بس جب میں ان کے گھر گیا تو انہوں نے مجھے دو سوروپے دیئے اور کہنے لگے کہ بھائی آپ کی بہت بہت مہربانی ‘ آپ جیسے اچھے لوگ ابھی ہیں‘ میں نے محمد طفیل سے پوچھا کہ پولیس والے تو آپ کو بہت پریشان کرتے ہوں گے کہنے لگے کہ میں نے ایک ایک کاغذ سنبھال کر رکھا ہوا ہے ہر ٹیکس اور فیس کی پائی پائی ادا کر رکھی ہے میں اور ڈرائیور محمد طفیل باتیں کرتے چلے جارہے تھے لاہور کی سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے لڑکے اخبار بیچ رہے تھے اور چوراہوں پر رکنے والی موٹر گاڑیوں کی کھڑکیوں میں منہ ڈال ڈال کر اخبارکی سرخیاں سنا رہے تھے سری لنکا جیتے گا‘ جیتے گا بھئی جیتے گا‘ محمد طفیل جو ابھی قتل اندیشوں کی باتیں کر رہے تھے اب اخبار بیچنے والے لڑکوں کی شرارت پر ہنس رہے تھے اور اخبار کی فرضی سرخیاں سن سن کر قہقہے لگا رہے تھے بہت اچھے آدمی تھے‘ محمد طفیل۔