خطرناک راستوں پر ریلوے لائن


سینئر براڈ کاسٹر رضا علی عابدی بلوچستان سے ایک دشوار ریلوے لائن ڈالنے کی تفصیل میں بتاتے ہیں کہ جب درہ بولان کے راستے دوسری لائن ڈالنی شروع کی گئی تو یہ دونوں لائنیں مارچ1887ءمیں بوستان کے مقام پر ملیں‘ انجینئر چاہتے تھے کہ جلد سے جلد چمن تک پہنچیں اور افغانستان میں داخل ہو جائیں اس کیلئے چمن میں بہت بڑا گودام بنا کر ریلوے کی تعمیر کا مال اسباب بھی جمع ہونے لگا‘ اب مرحلہ تھا خوجک کی12870 فٹ لمبی سرنگ کھودنے کا‘ کام بہت بڑا تھا لہٰذا مزدوروں کی بڑی فوج درکار تھی‘ وہ ریڈیو‘ اخبار کا زمانہ تو تھا نہیں چاردانگ عالم میں خوجک کی سرنگ کے منصوبے کا اعلان ہوگیا‘ دیکھتے ہی دیکھتے مزدوروں کے غول کے غول وہاں پہنچنے لگے‘ بہت سے مزدور تورات‘ سیستان‘ قندہار‘ غزنی‘ کابل اور جلال آباد سے آئے بڑھئی اور مستری کے کام کیلئے سکھ بلائے گئے‘ اینٹیں پکانے والے مزدور بنگال سے آئے برطانیہ سے وہ کان کن بلائے گئے جنہوں نے انگلستان اور ویلز کے درمیان دریائے سیورن کے نیچے سرنگ کھودی تھی‘14اپریل1888ءکو خوجک کی سرنگ کی کھدائی شروع ہوئی‘ مزدور پہاڑ کی دونوں جانب سے پل پڑے اور پورے دو سال تین دن بعد دونوں طرف کی سرنگیں پہاڑ کے قلب میں جاملیں اس کے بعد سرنگ کی تعمیر شروع ہوئی جس میں کہتے ہیں کہ ایک کروڑ ستانوے لاکھ چونسٹھ ہزار چار سو چھبیس اینٹیں لگیں‘ سرنگ کاٹنا آسان نہ تھا اس میں جو سب سے بڑا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا اس کی انجینئروں کو پہلے سے خبر نہیں تھی ہوا یہ کہ پہاڑ کے اندر پانی کا بہت بڑا ذخیرہ چھپا ہوا تھا‘ مزدور سرنگ کاٹتے کاٹتے جوں ہی وہاں پہنچے پانی کا ریلا بہہ نکلا‘ اتنی لمبی سرنگ کے اندر روشنی کرنا ناممکن تھا انجینئروں نے اس کا بہت دلچسپ حل نکالا اور سرنگ کے دہانے پر بہت بڑا آئینہ لگادیا اس آئینے کو سورج کی طرف پھیر دیا جاتا تھا اس سے ٹکرا کر دھوپ سیدھی کرن کی طرح سرنگ کے اندر دوڑ جاتی تھی اور کہتے ہیں کہ ایک میل تک روشنی ہو جاتی تھی بعد میں سرنگ کا معائنہ بھی اسی طرح ہوا کرتا تھا یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ یہ سرنگ لکیر کی طرح سیدھی ہے‘ 30 ستمبر1891ءکو خوجک کی سرنگ کا افتتاح ہوا اور ریلوے لائن اس سے گزر کر قندہار کو چلی البتہ قلعہ چمن سے تقریباً پانچ کلومیٹر آگے جا کر رک گئی‘ سرمارٹیمر ڈیورینڈ نے اس جگہ1893ءمیں وہ سرحد کھینچی تھی جو آج تک ڈیورینڈ لائن کہلاتی ہے‘ انگریز قندہار تو نہ جا سکے لیکن قندہار کے پھلوں سے لدی ہوئی ریل گاڑیاں ہندوستان میں اترنے لگیں آزادی سے پہلے پھلوں کی ایک گاڑی روزانہ چلتی تھی اور چونکہ چمن سے چلتی تھی اس لئے یہ پھل آج تک چمن کے پھل کہلاتے ہیں اس وقت برف میں لگا کریہ پھل کلکتے اور مدراس تک بھیجے جاتے تھے‘ 20ءکے عشرے میں امیر کابل نے ریل گاڑی کے ذریعے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا ان کے لئے وائسرائے کی خصوصی ٹرین چمن بھیجی گئی؛1922ءمیں حکومت پاکستان کی تجویز تھی کہ پاکستان ویسٹرن ریلوے کو افغان سرحد کے پندرہ کلو میٹر اندر تک پہنچا دیا جائے تاکہ پھل لادنے کا کام وہیں ہو جایا کرے۔