غزہ کا الشفاءہسپتال

سولہ نومبر کو مغرب کے مفکرین عصر حاضر نے کہا کہ اب سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہو جائے گا۔اب حق اور باطل دوپہر کے سورج کی طرح روشن ہو کر سامنے آ جائیں گے‘ اسی روز ایک امریکی اخبار نے شہ سرخی میں لکھا کہ Israeli Capture Of Hospital May Shape Course of War یعنی اسپتال پر اسرائیل کے قبضے کے بعدجنگ کی سمت کا تعین ہو جائیگا‘ اس طویل خبر کے آغاز میں لکھا تھا کہ اس جنگ کا فیصلہ اس جگہ کے سب سے بڑے اسپتال کی چھان بین سے جڑا ہو اہے‘ بدھ کے روز الشفا ءا سپتال پر قبضے سے بہت پہلے اسرائیل عالمی میڈیا کو بتا رہا تھا کہ اس میڈیکل کمپلیکس کے نیچے حماس کا خفیہ ملٹری کمانڈ سینٹرچھپا ہو اہے اور اس پر قبضے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حماس مریضوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے‘ جمعرات کے دن صدر بائیڈن نے کہا کہ اس اسپتال کا ایک ملٹری ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال ہونا ایک جنگی جرم ہے‘ اس حملے سے دو روز پہلے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیون نے سی این این کے پروگرام سٹیٹ آف دی یونین میں کہا تھاکہ حماس اسپتالوں کے علاوہ کئی دوسرے شہری اداروں کو اسلحہ اور جنگجو چھپانے کے لئے استعمال کرتی ہے‘ اسرائیل کو اسی گرین سگنل کا انتظار تھا جس کے بعد اس نے ایک مرتبہ پھر تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غزہ کے اسپتال پر ہلہ بول دیا۔ اس سے پہلے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یہ کہہ چکی تھی کہ ہزاروں مریضوں سے بھرا ہوا یہ اسپتال ‘ بجلی ‘ ادویات‘ پٹرول ‘ آکسیجن اور Anesthesia نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہو گیا ہے۔سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہونیوالی اس جنگ میں اب تک تیرہ ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید اور بتیس ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں‘ الشفاءاس علاقے کا سب سے بڑا اور جدید اسپتال ہونے کی وجہ سے لوگوں کےلئے ایک پنا ہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے‘ اخباری اطلاعات کے مطابق نو سو بستروں کے اس اسپتال میں اس وقت تقریباّّ تین ہزار افراد قیام پذیر ہیں‘ان میں ایک بڑی تعداد مریضوں کی ہے۔ بدھ اور جمعرات کے حملوں کے بعد اسرائیل نے جو ویڈیو فوٹیج مغربی صحافیوں کو دکھائی ہے اسے امریکی نیوز میڈیا کے علاوہ یورپی صحافیوں نے بھی ناکافی اور غیر تسلی بخش قرار دیا ہے‘ ایک امریکی نیوز ایجنسی Politico نے کہا ہے کہ ” چوبیس گھنٹے کی چھان بین کے بعد بھی کوئی کمانڈ سینٹر ‘ کوئی یرغمالی یا حماس کا کوئی جنگجو دریافت نہیں کیا جا سکا“ واشنگٹن پوسٹ نے جمعرات کے دن لکھا ہے کہ اسرائیل نے ابھی تک کوئی ایسے شواہد پیش نہیں کئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ الشفاءمیں حماس کا ملٹری ہیڈ کوارٹر تھااور اسی جگہ سے یہ عسکری تنظیم تمام جنگی کاروائیوں کی نگرانی کر رہی تھی۔ نیو یارک ٹائمز نے انیس نومبر کی اشاعت میں لکھا ہے کہ اسرائیل نے ابھی تک ایسے ثبوت پیش نہیں کئے جن سے ظاہرہوتا ہو کہ الشفاءکے زیر زمین سرنگوں کا نیٹ ورک یا کوئی کمانڈ سینٹر موجود ہے۔ اس اسپتال پر قبضے کے بعد اسرائیل کی ساری جنگی حکمت عملی کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے غزہ کے اسپتالوں پر فضائی اور زمینی حملے کرنے کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ انہیں کیونکہ ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اس لئے ان پر حملے جنگی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔اب اگر چہ کہ اس دعوے کی قلعی کھل گئی ہے مگراسکے باوجود اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ امریکی میڈیا پہلی مرتبہ محفوظ فاصلوں سے اسرائیل کی جنگی حکمت عملی پر تنقید کر رہا ہے مگر بائیڈن انتظامیہ اپنے اتحادی کی حمایت سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہے حماس پر اسرائیل کے اس الزام کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ پندرہ برس پہلے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی Shin Bet کے سربراہ Yuval Diskin نے Haaretz اخبار کو بتایا تھا کہ حماس کے لیڈر الشفاءکی Basement کو اسلحہ چھپانے اور اپنی قیام گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں‘ یووال ڈسکن کو اسی وقت ایک صحافی نے جواب دیاتھا کہ حماس کے لیڈر کبھی ایک جگہ قیام نہیں کرتے بلکہ وہ ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں‘ Haaretz کے صحافی Amos Harel نے اس رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں اتنی مرتبہ الشفاءکے تہہ خانے اور اس سے ملحقہ سرنگوں کے نیٹ ورک کا ذکر کر چکی ہیں کہ اب حماس کے لیڈر اس اسپتال کے قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اسکے بعد جولائی 2014ءمیں جب اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی تو اس وقت بھی اس نے الشفاءکو بند کرنے کی دھمکی دی تھی مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اس نے ہاتھ روک لئے تھے۔ الشفاءکے بارے میں جھوٹ سچ اور حق و باطل کے فیصلے پہلے بھی مغربی صحافیوں نے اسرائیل کے خلاف دیئے ہوئے ہیں مگر اس بے قابو اور بے لگام صیہونی ریاست کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک امریکہ اسکے ساتھ کھڑا ہے وہ یہ بربریت جاری رکھے گی۔