میلے کی کہانی

 معروف براڈکاسٹر رضا علی عابدی ایک میلے میں شرکت کی داستان اپنے مخصوص دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب آپ رات دن سفر کر رہے ہوں‘ آج اِس شہر میں‘ کل اُس شہر میں‘ تو بعض اوقات آپ کو یاد نہیں رہتاکہ آپ کس شہر میں ہیں‘ خصوصاً رات گہری نیند سوتے ہوئے آنکھ کھل جائے تو یوں لگتا ہے کہ آپ چھوٹے سے بچے ہیں اور کسی میلے میں کھو گئے ہیں‘ اس روز میرے ساتھ بھی یہی ہوا میں سو رہا تھا کہ اچانک آنکھ کھلی‘ مرغ کے بانگ دینے سے نہیں بلکہ شیر کے دہاڑنے سے‘ یوں محسوس ہوا کہ شیر کی آواز گونجتی ہوئی زمین کے نیچے نیچے آئی اور میرے کمرے کے فرش سے ابل پڑی میں تو گھبرا کر فوراً ہی اٹھ بیٹھا مگر میرے دماغ نے جاگنے میں دیر لگائی‘ کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ یہ سبی ہے اور میری قیام گاہ کے پچھواڑے رات میلہ لگا ہوا تھا یہ شاید اس کی سرکس کا شیر تھا جو صبح اٹھ کر یا تو بھوک کی شکایت کر رہاتھا یا قید کی یا شاید اپنی تنہائی کی... ابھی کل رات میں وہاں گھوم رہا تھا‘ ہم نے چائے پر قناعت کی‘ چھول داریوں اور پھونس کے ایک بہت بڑے طعام خانے میں میز کرسیاں لگی تھیں بلکہ چارپائیاں بچھی تھیں ان ہی پر بیٹھ کر ہم نے دوسرے لوگوں کی طرح چائے طشتری میں انڈیل کر پی‘ پھر ہم نے شعبہئ زراعت کے اسٹال میں طرح طرح کی کھجوریں چکھیں‘ بعض اتنی میٹھی کہ اگر ان کی مٹھاس نکالی نہ جائے تو وہ کھائی نہ جائیں اور کچھ اتنی پھیکی لیکن اتنی لذیز کہ اوپر سے مٹھاس ڈالنی پڑتی ہے‘ ہم نے شعبہئ تعلیم کے اسٹال پر جدید کمپیوٹر دیکھا جس کے بٹن دبانے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ بلوچستان کے کس علاقے میں کتنے سکول ہیں‘ کتنے سکولوں کی اپنی عمارتیں ہیں یہاں تک کہ کتنی عمارتوں کی چھتیں نہیں ہیں‘ میں سبی کے اسٹیشن کی طرف چلا تو راستے میں وہ سیدھا اور بہت لمبا بازار پڑا جس کے ایک سرے پر گول چوراہا اور بہت دور دوسرے سرے پر تھانے کا گیٹ ہے‘ لکڑی کا بنا ہوا بھاری بھر کم دروازہ اس روز میں سبی کے ریلوے اسٹیشن پہنچا تو پلیٹ فارم مسافروں سے بھرا ہوا نہیں تھا میں ٹھہرا سدا کا بے چین‘ گاڑی آنے سے بہت پہلے اسٹیشن پہنچ گیا‘ مگر اس کا فائدہ یہ ہوا  کہ اسٹیشن کے عملے کی میزبانی نصیب ہوئی انہوں نے قدیم زمانے سے لگے ہوئے وہ بھاری بھرکم آہنی آلات دکھائے جن سے پتہ چلتا ہے کہ کون سی گاڑی پچھلے اسٹیشن سے نکل چکی ہے اور کون سی ٹرین اگلے اسٹیشن تک بخیر و عافیت پہنچ چکی ہے کس ڈرائیور نے کون سا گولا پھینکا ہے اور آگے جانے والے ڈرائیور کو کون سا نمبر دینا ہے‘ نوجوان عملہ بڑے اشتیاق سے یہ سب کچھ مجھے دکھا رہا تھا اورکہہ رہا تھا کہ ان آلات اور اس نظام کو اگر سمجھ داری سے چلایا جائے تو ریل گاڑی کی ٹکر ہو ہی نہیں سکتی‘ یوں اب پاکستان کی ریلوے لائنوں کے ساتھ دوڑنے والے ٹیلی فون کے تار رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں ان کی جگہ جدید مائیکرو ویو نظام آرہا ہے جس نے نہ صرف سارے اسٹیشنوں کو جوڑ دیا ہے بلکہ چلتی گاڑیوں میں ڈرائیور کی نشست پر بھی ٹیلی فون لگ گئے ہیں ریلوے کے کچھ ملازموں نے مجھ سے شکایت کی وہ کہتے تھے کہ یہ نیا نظام بالکل ناکارہ ہے وہ پرانا ٹیلی فون کے تار والا نظام لاجواب تھا‘ میں نے ریلوے کے ایک افسر سے تصدیق چاہی‘ کہنے لگے کہ ہر نئی چیز کی عادت ڈالنی پڑتی ہے اور اس میں کچھ وقت لگتا ہے کہتے تھے کہ ہم نے بارہا اس نظام کو آزما کر دیکھا اور یہ دیکھنا چاہا کہ ریلو ے کا عملہ اسے کیون کر برت رہا ہے سبی کا اسٹیشن سویا سویا سالگ رہا تھا اچانک کوئٹہ ایکسپریس آگئی سویا ہوا اسٹیشن جاگ اٹھاہر طرف چائے چائے کی صدا لگنے لگی سامنے پلیٹ فارم پر چائے خانے تھے جنہیں ریلوے کی زبان میں ٹی سٹال کہتے ہیں لوگ ان کے سامنے جمع ہو کر چائے پی رہے تھے۔